السلام علیکم۔ تجسس فورم میں خوش آمدید اور ویلکم۔۔۔ تجسس فورم پر آپ پا سکتے ہیں ۔۔۔ الف۔قومی اور بین الاقوامی امور سے متعلق خبریں و معلومات ، جنرل نالج اورشعر و شاعری سے متعلق مواد۔۔۔۔ب۔مختلف بہترین تجزیہ نگاروں کے خیالات پر مبنی کالم /مضامین/آرٹیکلز۔۔۔ج۔تعلیم ،درس و تدریس اورآئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سےمتعلق مواد جن میں پی ڈی ایف بکس/نوٹس،ٹیوشن وٹیوشن ٹیچرز/ٹیوٹرز،تعلیمی اداروں ،ڈیٹ شیٹس وامتحانات کے نتائج سے متعلق معلومات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔فی الحال اس فورم کا یہی ایک ہی ویب سائٹ ہے۔ مستقبل قریب میں ایک روزنامہ اخبار اور ایک ماہنامہ رسالہ بھی لانچ کرنے کا ارادہ ہے ان شا اللہ۔

Friday, September 2, 2016

تعلیم کے مواقع صرف ’’افلاطونوں ‘‘ کے لئے

تعلیم کے مواقع صرف ’’افلاطونوں ‘‘ کے لئے



تودوسری طرف تعلیم حاصل کرنے


کے جو رستے ہیں ان کو پیچیدہ 
سے پیچیدہ تر بنایا جا رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے مراکز ڈگری دینے والے ادارے ہوتے ہیں
جو عموماَیونیوسرٹیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں کل 73 سرکاری یونیوسرٹیاں ہیں۔
یونیورسٹی کا کوئی بھی شعبہ عموماَصرف 100 نشستیں رکھتا ہے اپنے اندر۔ تو کیا
ایسے میں 73 یونیوسرٹیاں 18 کروڑ عوام کے لئے کافی ہیں؟ نہیں ناں ! ہونا تو یہ

چاہیے تھا کہ حکومت مزید یونیوسرٹیاں اور کالجز بناتی لیکن بجائے اس کے حکومت نے
اپنے لئے ایک Easy اور Shortcut رستہ ڈھونڈا ہے،وہ ہے یونیوسرٹیوں اور کالجز
کے میرٹس کو بلند سے بلند کرنا اور سٹوڈنٹس کے ایگزیمز اور پیپر چیکنگ کا سسٹم 
سخت سے سخت اور پیچیدہ سےپیچیدہ بنانا ،سینکڑوں قسم کے نت نئے پیچیدہ VIVA's 
اور Entry Tests متعارف کروانا۔ مطلب کسی نہ کسی طریقے سے سٹوڈنٹس کو 
سرکاری یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ لینے کی اہلیت حاصل کرنے سے روکنا ۔ کیونکہ ظاہر
ہے جب زیادہ سٹوڈنٹس یہ اہلیت حاصل کرپا ئیں گے تو حکومت انھیں کہاں Compensate 
کرےگی؟ پھر تو یہ سٹوڈنٹس احتجاج کر کے،چلّا کے،نئی یونیورسٹیاں اور کالجزبنانے
کا مطالبہ کریں گے، تو حکومتی اراکین پہلے تو اس موڈ میں ہیں نہیں ،کیونکہ وہ اگر ان
پہ پیسے خرچ کرینگےتو جیب میں کیا ڈالیں گے، اور بالفر ض اگر وہ ایسا کر بھی لیں تو پھر
اتنے زیادہ یونیورسٹیوں اور کالجز سے جو کثیر تعداد میں لوگ فارغ التحصیل ہو جائیں گے
تو ان کے لئے Jobs کا بندوبست کیسے ہوگا ؟ حکومت ان دو فیکٹرز کو مدنظر رکھتے
ہوئے ہر ممکن طریقے سے آجکل سٹوڈنٹس کو اپنا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھانے سے
روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج سے 30 ،35 سال پہلے جو کوئی F.sc کا امتحان
پاس کرلیتا تھا تو بس وہ میڈیکل /انجینیئرنگ کالج میں جانے کا اہل ہوجا تاتھا ۔ انٹری ٹسٹس
وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ آجکل کوئی F.sc میں اگر بورڈ ٹاپ بھی کر لے لیکن جب 
تک انٹری ٹسٹ کو پاس نہ کرے، میڈیکل /انجینیئرنگ کالجز میں نہیں جاسکتا۔ اور صرف
پاس کرنے سے بھی آجکل کام نہیں چلتا ،بلکہ بہترین میرٹ کے ساتھ پاس کرنا ہوتا ہے۔ 
اور پھر ہر سال انٹری ٹسٹ اور BISE's کے ایگزیمز کا پیٹرن بھی پیچیدہ سے پیچیدہ بنانے
اور سٹرکٹ پیپر چیکنگ کی کوشش کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی میں تو بہت سارے شعبے ہوتے ہیں،آئیں ان میں سے کوئی بھی ایک شعبہ لے کر ایک Estimation لگاتے
ہیں ،مثال کے طور پر سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ لے لیتے ہیں ۔ اب ملک میں73 سرکاری
یونیورسٹیاں ہیں اور ہر یونیورسٹی کے پاس سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں 100 نشستیں 
دستیاب ہیں سٹوڈنٹس کے لئے ۔ تو اب 73x100=7300 ،تو اس کا مطلب ہوا کہ ملکی سطح پر صرف 7300 سٹوڈنٹس سوشیالوجی پڑھ سکتے ہیں۔ 
اب فرض کر 18 کروڑ عوام میں سے صرف 10 لاکھ افراد FA پاس کر چکے ہیں
(اول تو یہ بھی نا ممکن ہے،زیادہ ہونگے)،اب ان میں سے فرض کر صرف 30 ہزار سٹوڈنٹس ہی سوشیالوجی میں داخلہ لینا چاہتے ہیں،تو داخلہ ملنا تو
7300 سٹوڈنٹس کو ہے،اب یہ باقی 22700 سٹوڈنٹس بے چارے کیا کرینگے؟ 
یہی Estimatin اگر ہم میڈیکل کالجز کے بارے میں لگائیں تو سرکاری میڈیکل کالجز ہمارے ملک میں صرف 38 ہیں،اب ہر ایک کے
پاس 100 نشستیں ہوتی ہیں تو 38x100=3800 ،مطلب صرف 3800 سٹوڈنٹس
ہی کو ملکی سطح پر یہ موقع میسر ہے کہ وہ میڈیکل ایجوکیشن حاصل کریں،اب یہ باقی 
لاکھوں لوگ جو F.sc پری میڈیکل کرلیتے ہیں ،یہ بے چارے کیا کرینگے؟ یونیورسٹیوں
اور کالجزکی اس قدر محدود تعداد کا لاکھوں میں سے اس قدر محدود سٹوڈنٹس کو اپنے
آغوش میں جگہ دینے کے لئے ظاہر سی بات ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجزکو سخت سے 
سخت چھان بین کرنی ہوگی،مطلب نا لائق سٹوڈنٹس کو داخلہ ملنے کا موقع تو دور کی بات ہے،
ذہین سٹوڈنٹس کو بھی داخلہ نہیں مل پائے گا ،صرف ’’ذہین ترین ‘‘ افرادہی کو داخلہ ملے گا، 
اب ’’ ذہین ترین‘‘ یعنی ’’افلاطون‘‘ تو ہر کوئی نہیں ہوتا ناں! تو اب اس کا کیا یہ مطلب ہوا کہ تعلیم 
حاصل کرنے کے مواقع صرف ’’افلاطونوں‘‘ کو میسر ہونگے؟ تو یہ باقی عام لوگ کیا 
کرینگے پھر؟ کوئی بھی وہ سٹوڈنٹ نا لائق نہیں ہوتاجس نے رجسٹرڈ BISE سے F.sc 
کا امتحان پاس کیا ہو،نا لائق لوگ امتحانات پاس نہیں کرسکتے۔BISE کی طرف 
سے FA/F.sc کا سند ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص میڈیکل /انجینیئرنگ کالج 
یا یونیورسٹی میں جانے کا اہل ہوگیا ہے۔ FA/F.sc سرٹیفیکیٹ ہولڈر کو فوری طور پر 
میڈیکل /انجینیئرنگ کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ ملنا چاہئیے تھا۔ اس سلسلے میں کالج یا 
یونیورسٹی انتظامیہ کو مزید کیڑے نکالنے کا حق حاصل نہیں ہے۔لیکن خیر حکومت نے 
اس دلیل کا بھی تھوڑ نکالا ہے، وہ یہ کہ's BISE کی ایگزیمز کو مشکل سے مشکل کیا
جا رہا ہے اور پیپر چیکنگ کا طریقۂ کارسخت سے سخت کیا جا رہا ہے،تو اب تو 
بہت مشکل سے ہی کوئی FA/F.sc صرف پاس کرلیتا ہے،مارکس لینے کا تو
اب بس صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ جان بوجھ کر سٹوڈنٹس کو اچھے مارکس
نہیں دئے جاتے۔ بورڈ انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے تو سٹوڈنٹ کو فیل 
کروادے،اور اگر سٹوڈنٹ ذرا اچھا ہواور فیل کروانے کا ان کے پاس کوئی جواز نہ 
بن رہا ہو تو پھر کوشش کی جاتی ہے کہ کم سے کم مارکس لے لیں ۔ صرف چند 
’’براہِ راست نوازے گئے سٹوڈنٹس ‘‘ یا ’’نوازے گئے انسٹیٹیوٹس کے سٹوڈنٹس‘‘ 
ہی نمایاں مارکس لے لیتے ہیں ۔اگر ہم اپنے ملک کا موازنہ دوسرے ممالک 
جیسے امریکہ ،چین ،کینیڈا،برطانیہ،وغیرہ سے کریں تو دیکھیں وہاں اتنے
کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں کہ اپنے لوگوں کو تو انہوں نے Compensate کیا 
ہی ہوا ہے،بلکہ ہمارے لئے بھی وہاں پہ وافر مقدار میں Vacancies موجود ہوتے ہیں ۔
ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو یہاں کے یونیورسٹیز اور کالجز میں داخلہ نہیں
ملتا تو وہاں جا کر داخلہ لے لیتے ہیں۔ سو ہمارے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کا
جو سسٹم ڈیویلپ ہونے جا رہا ہے،اس میں تو تعلیم حاصل کرنے کا موقع صرف
’’افلاطونوں‘‘ کو ہی مل پائے گا،اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر کوئی تو ’’افلاطون‘‘
نہیں ہو سکتا۔ ’’افلاطون‘‘ تو لاکھوں میں کہیں ایک ہی پیدا ہوتا ہے۔مطلب ہمارے 
ملک کی کل آبادی میں سے بمشکل صرف 15% ہی ’’افلاطون‘‘ ہونگے،تو اب یہ 
باقی 85% لوگ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہیں گے۔ تعلیم حاصل کرنے کے
اس سسٹم میں چلنا عام ذہنی استطاعت رکھنے والے لوگوں کے بس کا کام نہیں ہے۔
ہمارے ہاں لوگ پرانے دور میں جو تعلیم حا صل کرتے تھے تو صرف اس لئے کہ
اس کے ذریعے ہمیں با عزت روزگار ملے گا،جب سے روزگار ملنے کا سلسلہ 
بندہوگیا ہے،اس نظرئیے والے لوگ اسی وقت سے تعلیم حاصل کرنے کو الوداع کہہ 
چکے ہیں ۔ اب موجودہ دور میں جو لوگ تعلیم حا صل کر رہے ہیں یہ وہ لوگ
ہیں جو یہ توقعات نہیں رکھتے کہ ہمیں نوکریاں مل جائیں گی تعلیم حا صل 
کر کے،بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خالصتاَ شوق کی بنیاد پر تعلیم حاصل کر رہے
ہیں۔لیکن ہمارے ہاں اگر تعلیم حاصل کرنے کا یہ سسٹم برقرار رہا اور ڈیویلپ
ہوتا رہا اور بھی ،تو یہ جو لوگ آج شوق سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں،یہ لوگ بھی
تعلیم کے نام سے توبہ کر لیں گے۔ یہ رہے سہے لوگ بھی تعلیم حاصل کرنا 
چھوڑ دینگے۔ اور یہ لوگ اگر شوق کی وجہ سے خود نہ بھی چھوڑنا چاہیں تو یہ 
سسٹم تعلیم حاصل کرنے کے رستے ان کے لئے بند کردےگا۔پھر مجبورَا ہی یہ لوگ
ان پڑھ رہا کریں گے۔آٹھویں جماعت سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکے گا۔یوں پورے 
ملک میں پھر سے نا خواندگی کا راج ہو جائے گا۔پس حکومت کو چاہئیے کہ وہ یہ
کہہ کر کہ ’’ Competition کا دور ہے،سٹوڈنٹس کو سخت سے سخت محنت
سے کام لےنا چاہیئے ‘‘،سٹوڈنٹس بے چاروں ہی کا سارا خون پسینہ نکلوا کر ان کا
استحصال نہ کرے،بجائے اس کے کہ حکومت ایگزیمز اور پیپر چیکنگ کے پالیسیوں
کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا تی پھرے،نئے کالجز اور یونیورسٹیاں بنا کر ایسا مقام 
حاصل کریں کہ نہ صرف ہمارے اپنے سٹوڈنٹس کو اپنے ملک میں Compensate کیا
جا سکے بلکہ دوسرے ممالک کے سٹوڈنٹس کے لئے بھی ہمارے کالجز اور
یونیورسٹیوں میں وافر مقدار میں Vacancies موجود ہو تا کہ جس طرح 
آج ہمارے سٹوڈنٹس اپنے ملک میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے دوسرے ممالک کا
رخ کرتے ہیں،اسی طرح دوسرے ممالک کے سٹوڈنٹس پاکستان کا رخ کریں۔ 
ایگزیمز اور پیپر چیکنگ کی پالیسیوں کو سخت سے سخت بنا کر،ہمیں Competition کے
لئے سخت سے سخت محنت پر مجبور کر کے،حکومت کو اپنی کوتاہیوں
اور نا اہلیوں کی سزا ہمیں نہیں دینی چاہیے۔ اور سٹوڈنٹس میں بھی اب
یہ Awareness آنی چاہئیے کہ وہ نئے کالجز اوریونیورسٹیز کی تعمیر کے لئے 
حکومت پر دباؤ ڈالے بجا ئے اس کے کہ وہ حکومت کی طرف سے متعارف کئے جانے
والے ہر نئے خود ساختہ Competition کے لئے کمر بستہ ہوا کریں۔

No comments:

Post a Comment