انسانوں کا اپنے خیالات ایک دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ زبان ہوتا ہے۔ اپنی ایک منفرد زبان رکھنا بھی کسی قوم کےلئے با عث فخر بات ہے۔کسی بھی زبان کا استعمال دو ہی طریقوں سے ہوتا ہے : (1) بولی یعنی Speaking
اور (2) تحریرWriting سے۔ پہلے ہم زبان کی بولی کی بات کرتے ہیں ،جسے دوسرے الفاظ میں ہم زبان کے الفاظ کی ادائیگی یا تلفظ (Pronounciation) بھی کہتے ہیں۔
کسی بھی زبان کے کسی لفظ کا تلفظ یا اس کی ادائیگی اس طرح درست سمجھی جاتی ہے جو عام اہل زبان میں رائج
ہو۔ کوئی شخص اگر ایک لفظ کی ہسٹری میں جائے کہ یہ فلاں زبان سے اِس زبان میں آیا ہے اور اُس زبان میں اِس کا جو تلفظ تھا،یہاں پر بھی ویسا ہی تلفظ ہونا چاہیے تو یہ بات غلط ہے۔جیسا کہ انگلش زبان میں بہت سارے الفاظ ایسے ہیں جو لاطینی یا یونانی زبان سے آئے ہیں مگر اب ہم ان کا درست تلفظ اس کو تو نہیں کہتے جو لا طینی یا یونانی زبان میں ان کا ہوتا ہے،وہ اصل یا بنیادی تلفظ ان کا بے شک ہوتا ہے مگر انگلش زبان کے حوالے سے ہم اس کو درست نہیں کہہ سکتے۔مطلب انگلش بولتے وقت ہم وہ الفاظ اس طرح ادا نہیں کرسکتے جس طرح ان کا بنیادی اور تاریخی تلفظ ہوتا ہے،بلکہ اس تلفظ کے ساتھ ادا کرینگے جس تلفظ کے ساتھ انگلش زبان والے انھیں ادا کرتے ہیں۔پس اس طرح باقی زبانوں میں بھی ہوتا ہے،لیکن ہمارے ہاں ہماری قومی زبان اردو کے اکثر الفاظ جب ہمارے مذہبی طبقے کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو وہ انھیں عربی کے الفاظ کی طرح ادا کرتے ہیں اور دعو یٰ کرتے ہیں کہ ان کا صحیح تلفظ ایسا ہی ہے،یہ باقی لوگ انھیں غلط ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ نظریہ غلط ہے،بے شک جو وہ کہتے ہیں ،ان الفاظ کا صحیح تلفظ ویسا ہی ہوگا مگر عربی زبان میں۔ اردو تو ایک الگ زبان ہے۔اس کے بولنے والے عربی قوم کے نہیں ہیں۔ایک الگ نسل ہے،ایک الگ قوم ہے،ان کا ایک الگ خطہ ہے جس کا اپنا Pronounciation Style ہے۔ سو ان کے زبان کے الفاظ کا صحیح تلفظ بھی وہی ہے جو ان میں رائج ہے نہ کہ عربوں میں۔مثلاََ کچھ الفاظ جیسا کہ ’’علی‘‘ ، ’’احمد‘‘ ، ’’عرض‘‘ ، ’’غضنفر‘‘ ، ’’حضرت‘‘ ، وغیرہ کا درست اردو تلفظ جو اہل زبان میں رائج ہو بالترتیب ’’اَلی‘‘ ، ’’ اِہمد‘‘ ، ’’اَرز‘‘ ، ’’غزنفر‘‘ ، ’’ہزرت‘‘ ہے۔ اردو زبان میں سرے سے مندرجہ ذیل حروف کا تلفظ ہے ہی نہیں: ث،ص،ذ،ض،ظ،ع،ط،ح،ژ۔۔۔(ث،ص) کا کام ’’س‘‘ چلاتا ہے، (ذ،ض،ظ) کا کام ’’ز‘‘ چلاتا ہے۔ (ع) کا کام ’’ا‘‘، (ح) کا کام ’’ہ‘‘ ، اور (ژ) کا کام ’’ج‘‘ چلاتا ہے۔۔۔ یہ تو تھا کچھ Speaking کے حوالے سے،اب آتے ہیں Writing یعنی تحریر کی طرف۔ دنیا میں جتنی زبانیں ہیں اتنے رسم الخط (Writing Scripts) نہیں ہیں۔ رسم الخط کی تعداد زبانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کم ہے،آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کسی خطے میں سینکڑوں زبانیں لکھنے کے لئے ایک ہی رسم الخط کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر لاطینی Latin رسم ا لخط کو اگر ہم دیکھیں تو اس میں صرف انگلش زبان ہی نہیں لکھی جاتی بلکہ تقریباََ تمام یورپی ممالک کی زبانیں اسی رسم الخط میں لکھی جا تی ہیں۔ اسی طرح Cyrillic رسم الخط جو بنیادی طور پر روسی زبان کا رسم الخط ہے،میں بھی صرف روسی زبان ہی نہیں لکھی جاتی بلکہ بہت ساری وسط ایشیائی ریاستوں کی یا ان کے آس پاس کے دوسرے ممالک کی زبانیں بھی اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح عربی رسم الخط کی اگر ہم بات کریں تو وہ بھی صرف عربی زبان کی لکھائی تک محدود نہیں ہے بلکہ تقریباََ اکثر مسلم ممالک کی زبانیں اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ ایسے میں پھر خوش قسمت قوم وہ ہے جس کی زبان کا اپنا ایک الگ،منفرد رسم الخط ہو۔ جو کسی دوسری زبان کا رسم الخط یا اس کی کاپی استعمال نہ کرتی ہو۔ اپنی رسم الخط ان کے پاس موجود ہو جو ان کی اپنی ہی دھرتی کی پیداوار ہو۔ ایسی خوش قسمت اقوام دنیا میں بہت کم ہیں جن کی زبان کی اس حد تک الگ پہچان ہو کہ اس کا رسم لخط بھی اپنی جگہ پر الگ رسم الخط ہو۔ ایسی زبانیں دنیا میں بہت ہی کم ہیں جو اپنے علیحٰدہ رسم الخط رکھتی ہوں۔ اس قوم کی زبان گویا یتیم یا غلا م ہے جس کی اپنی رسم الخط نہ ہو۔ ایسی قوم کو اپنی نسل ، جغرافیہ اور تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیئے اور ان کے جائزے کی روشنی میں اپنے لئے ایک الگ رسم الخط بنانا چاہئیے۔ یا اگر پہلے سے موجود ہو اور انہوں نے کسی دوسری قوم کا اپنے اوپر اثر کی وجہ سے کوئی اور رسم الخط اپنایا ہو تو اسے ترک کر کے اپنا اصل رسم الخط اپنانا چاہئیے۔ برصغیر پاک و ہندکے کئی اپنے پیدا کردہ رسم الخط ہیں،جس میں سب سے مشہور اور خطہء ہند کی پہچان کے طور پر جو جانا جاتا ہے،وہ ہے ’’دیو ناگری‘‘ رسم الخط۔۔ اردو زبان کو دنیا میں ’’ہندوستانی‘‘ یا ’’ہندی‘‘ کے ناموں سےزیادہ جانا جاتا ہے۔ بھلے اس میں عربی و فارسی کے بہت سارے الفاظ شامل ہیں مگر اس کی Birth (پیدائش) سر زمینِ ہندوستان ہی میں ہوئی ہے۔اور ہندوستان ہی میں پیدا ہونے والوں نے چاہے وہ مسلم ہو یا کافر مگر ہندوستانی باشندوں ہی نے اس زبان کو Develope کیا ہے۔ ہندوستانیوں ہی سے منسوب ہے دنیا میں۔ تو پھر اس کا تقاضا ہہ ہے کہ رسم الخط بھی اردو کو وہی دیا جائے جو ہندوستانی سر زمین کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ وہ ہے ’’دیوناگری‘‘ رسم الخط۔ بات یہاں ہندومسلم ضد و تعصب کی سرے سے ہونی ہی نہیں چاہئیے۔ غیر جانبدارانہ طور پر سوچنا چاہیئے۔ ہمیں تو اس پر فخر ہونا چاہیئے تھا کہ ہمارے خطے یعنی خطہء برصغیر (جنوبی ایشیاء) کے پاس اپنا ایک الگ رسم الخط موجود ہے۔ سرزمینِ برصغیر پر جنم لینے والی کوئی بھی زبان بیرونی رسم الخط کی محتاج نہیں ہے۔لیکن ہم نے محض مسلمان ہونا اپنے لئے ایک جواز بنا کر دیوناگری رسم الخط کو ٹھکرا کر عربی رسم الخط اپنایا۔ دیوناگری رسم الخط ہندومت اور خالص ہندی زبان کی جاگیر نہیں ہے۔یہ برصغیر کی سر زمین کی پیداوار ہے،سو کسی بھی برصغیری زبان کا اس کے استعمال کے پر اتنا ہی حق ہے جتنا خالص ہندی یا سنسکرت زبان کا ہے۔ ہم اگر خود کو مسلمان کی حیثیت سے ایک الگ قوم کہیں تو قوم تو ہماری بے شک الگ ہے مگر نسل ہماری پھر بھی ہندوستانی ہے۔ عربی ٹھیک ہے ہماری مذہبی زبان ہے مگر اسلام ہمیں ہر گز یہ درس نہیں دیتا کہ تم اپنی شناخت،اپنے نسل و قبیلے کی شناخت ترک کرکے عربوں کی شناخت اپناؤ۔ قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے: ’’اور ہم نے تمھیں قبائل میں اس لئے تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔‘‘ اس ارشاد سے صاف پتا چلتا ہے کہ اسلام اس کے حق میں نہیں ہے کہ ہم اپنی شناخت ترک کر کے عربی زبان،عربی طورو اطوار اور عربی سٹائل اپنائیں۔ بلکہ اپنی نسل،جغرافئیے اور قبیلے کی شناخت ترک نہ کرنے پہ زور دیا گیا ہے۔ اسلام صرف ان اعمال اور رسموں سے منع فرماتا ہے جو غیر شرعی ہو چاہے وہ کسی بھی قبیلے کے ہو ۔ جس طرح ہمارا ہندوستانی سر زمین کے اوپر ہندوؤں کے ساتھ تنازعہ ہے کہ بھئی یہ سارا ہندوستان ہمارا ہے،صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ،کیونکہ ہم نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔(ہمارے مذہبی طبقے کے وہ افراد جو قائد اعظم کے مخالف تھے،اسی نظرئیے کے حامی تھے ۔ اور ہہی لوگ اردو کو عربی کے رنگ میں رنگنا پسند کرتے ہیں۔) اسی طرح ہمیں دیو ناگری رسم الخط کے استعمال کے اوپر بھی اپنا حق سمجھنا چاہئیے،نہ کہ اس کے استعمال کو ہندوؤں کے ساتھ مشابہت سمجھ کر ترک کرنا چاہیئے۔ سو اردو زبان کا رسم الخط یا تو دیوناگری ہونا چاہیئے یا اگر پھر بھی ہماری یہ سوچ ہے کہ نہیں،دیوناگری رسم لخط ہندومت سے منسوب ہے،ہم تو مسلمان ہیں ،ایک الگ قوم ہیں ،تو پھر ہمیں ایک کمیٹی بنا کر بٹھانی چاہیئے کہ وہ ایک نیا ،منفرد اور علیحٰدہ رسم الخط اردو کے لئے بنائے،نہ کہ عربی رسم الخط میں لکھی جائے۔
اور (2) تحریرWriting سے۔ پہلے ہم زبان کی بولی کی بات کرتے ہیں ،جسے دوسرے الفاظ میں ہم زبان کے الفاظ کی ادائیگی یا تلفظ (Pronounciation) بھی کہتے ہیں۔
کسی بھی زبان کے کسی لفظ کا تلفظ یا اس کی ادائیگی اس طرح درست سمجھی جاتی ہے جو عام اہل زبان میں رائج
ہو۔ کوئی شخص اگر ایک لفظ کی ہسٹری میں جائے کہ یہ فلاں زبان سے اِس زبان میں آیا ہے اور اُس زبان میں اِس کا جو تلفظ تھا،یہاں پر بھی ویسا ہی تلفظ ہونا چاہیے تو یہ بات غلط ہے۔جیسا کہ انگلش زبان میں بہت سارے الفاظ ایسے ہیں جو لاطینی یا یونانی زبان سے آئے ہیں مگر اب ہم ان کا درست تلفظ اس کو تو نہیں کہتے جو لا طینی یا یونانی زبان میں ان کا ہوتا ہے،وہ اصل یا بنیادی تلفظ ان کا بے شک ہوتا ہے مگر انگلش زبان کے حوالے سے ہم اس کو درست نہیں کہہ سکتے۔مطلب انگلش بولتے وقت ہم وہ الفاظ اس طرح ادا نہیں کرسکتے جس طرح ان کا بنیادی اور تاریخی تلفظ ہوتا ہے،بلکہ اس تلفظ کے ساتھ ادا کرینگے جس تلفظ کے ساتھ انگلش زبان والے انھیں ادا کرتے ہیں۔پس اس طرح باقی زبانوں میں بھی ہوتا ہے،لیکن ہمارے ہاں ہماری قومی زبان اردو کے اکثر الفاظ جب ہمارے مذہبی طبقے کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو وہ انھیں عربی کے الفاظ کی طرح ادا کرتے ہیں اور دعو یٰ کرتے ہیں کہ ان کا صحیح تلفظ ایسا ہی ہے،یہ باقی لوگ انھیں غلط ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ نظریہ غلط ہے،بے شک جو وہ کہتے ہیں ،ان الفاظ کا صحیح تلفظ ویسا ہی ہوگا مگر عربی زبان میں۔ اردو تو ایک الگ زبان ہے۔اس کے بولنے والے عربی قوم کے نہیں ہیں۔ایک الگ نسل ہے،ایک الگ قوم ہے،ان کا ایک الگ خطہ ہے جس کا اپنا Pronounciation Style ہے۔ سو ان کے زبان کے الفاظ کا صحیح تلفظ بھی وہی ہے جو ان میں رائج ہے نہ کہ عربوں میں۔مثلاََ کچھ الفاظ جیسا کہ ’’علی‘‘ ، ’’احمد‘‘ ، ’’عرض‘‘ ، ’’غضنفر‘‘ ، ’’حضرت‘‘ ، وغیرہ کا درست اردو تلفظ جو اہل زبان میں رائج ہو بالترتیب ’’اَلی‘‘ ، ’’ اِہمد‘‘ ، ’’اَرز‘‘ ، ’’غزنفر‘‘ ، ’’ہزرت‘‘ ہے۔ اردو زبان میں سرے سے مندرجہ ذیل حروف کا تلفظ ہے ہی نہیں: ث،ص،ذ،ض،ظ،ع،ط،ح،ژ۔۔۔(ث،ص) کا کام ’’س‘‘ چلاتا ہے، (ذ،ض،ظ) کا کام ’’ز‘‘ چلاتا ہے۔ (ع) کا کام ’’ا‘‘، (ح) کا کام ’’ہ‘‘ ، اور (ژ) کا کام ’’ج‘‘ چلاتا ہے۔۔۔ یہ تو تھا کچھ Speaking کے حوالے سے،اب آتے ہیں Writing یعنی تحریر کی طرف۔ دنیا میں جتنی زبانیں ہیں اتنے رسم الخط (Writing Scripts) نہیں ہیں۔ رسم الخط کی تعداد زبانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کم ہے،آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کسی خطے میں سینکڑوں زبانیں لکھنے کے لئے ایک ہی رسم الخط کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر لاطینی Latin رسم ا لخط کو اگر ہم دیکھیں تو اس میں صرف انگلش زبان ہی نہیں لکھی جاتی بلکہ تقریباََ تمام یورپی ممالک کی زبانیں اسی رسم الخط میں لکھی جا تی ہیں۔ اسی طرح Cyrillic رسم الخط جو بنیادی طور پر روسی زبان کا رسم الخط ہے،میں بھی صرف روسی زبان ہی نہیں لکھی جاتی بلکہ بہت ساری وسط ایشیائی ریاستوں کی یا ان کے آس پاس کے دوسرے ممالک کی زبانیں بھی اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح عربی رسم الخط کی اگر ہم بات کریں تو وہ بھی صرف عربی زبان کی لکھائی تک محدود نہیں ہے بلکہ تقریباََ اکثر مسلم ممالک کی زبانیں اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ ایسے میں پھر خوش قسمت قوم وہ ہے جس کی زبان کا اپنا ایک الگ،منفرد رسم الخط ہو۔ جو کسی دوسری زبان کا رسم الخط یا اس کی کاپی استعمال نہ کرتی ہو۔ اپنی رسم الخط ان کے پاس موجود ہو جو ان کی اپنی ہی دھرتی کی پیداوار ہو۔ ایسی خوش قسمت اقوام دنیا میں بہت کم ہیں جن کی زبان کی اس حد تک الگ پہچان ہو کہ اس کا رسم لخط بھی اپنی جگہ پر الگ رسم الخط ہو۔ ایسی زبانیں دنیا میں بہت ہی کم ہیں جو اپنے علیحٰدہ رسم الخط رکھتی ہوں۔ اس قوم کی زبان گویا یتیم یا غلا م ہے جس کی اپنی رسم الخط نہ ہو۔ ایسی قوم کو اپنی نسل ، جغرافیہ اور تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیئے اور ان کے جائزے کی روشنی میں اپنے لئے ایک الگ رسم الخط بنانا چاہئیے۔ یا اگر پہلے سے موجود ہو اور انہوں نے کسی دوسری قوم کا اپنے اوپر اثر کی وجہ سے کوئی اور رسم الخط اپنایا ہو تو اسے ترک کر کے اپنا اصل رسم الخط اپنانا چاہئیے۔ برصغیر پاک و ہندکے کئی اپنے پیدا کردہ رسم الخط ہیں،جس میں سب سے مشہور اور خطہء ہند کی پہچان کے طور پر جو جانا جاتا ہے،وہ ہے ’’دیو ناگری‘‘ رسم الخط۔۔ اردو زبان کو دنیا میں ’’ہندوستانی‘‘ یا ’’ہندی‘‘ کے ناموں سےزیادہ جانا جاتا ہے۔ بھلے اس میں عربی و فارسی کے بہت سارے الفاظ شامل ہیں مگر اس کی Birth (پیدائش) سر زمینِ ہندوستان ہی میں ہوئی ہے۔اور ہندوستان ہی میں پیدا ہونے والوں نے چاہے وہ مسلم ہو یا کافر مگر ہندوستانی باشندوں ہی نے اس زبان کو Develope کیا ہے۔ ہندوستانیوں ہی سے منسوب ہے دنیا میں۔ تو پھر اس کا تقاضا ہہ ہے کہ رسم الخط بھی اردو کو وہی دیا جائے جو ہندوستانی سر زمین کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ وہ ہے ’’دیوناگری‘‘ رسم الخط۔ بات یہاں ہندومسلم ضد و تعصب کی سرے سے ہونی ہی نہیں چاہئیے۔ غیر جانبدارانہ طور پر سوچنا چاہیئے۔ ہمیں تو اس پر فخر ہونا چاہیئے تھا کہ ہمارے خطے یعنی خطہء برصغیر (جنوبی ایشیاء) کے پاس اپنا ایک الگ رسم الخط موجود ہے۔ سرزمینِ برصغیر پر جنم لینے والی کوئی بھی زبان بیرونی رسم الخط کی محتاج نہیں ہے۔لیکن ہم نے محض مسلمان ہونا اپنے لئے ایک جواز بنا کر دیوناگری رسم الخط کو ٹھکرا کر عربی رسم الخط اپنایا۔ دیوناگری رسم الخط ہندومت اور خالص ہندی زبان کی جاگیر نہیں ہے۔یہ برصغیر کی سر زمین کی پیداوار ہے،سو کسی بھی برصغیری زبان کا اس کے استعمال کے پر اتنا ہی حق ہے جتنا خالص ہندی یا سنسکرت زبان کا ہے۔ ہم اگر خود کو مسلمان کی حیثیت سے ایک الگ قوم کہیں تو قوم تو ہماری بے شک الگ ہے مگر نسل ہماری پھر بھی ہندوستانی ہے۔ عربی ٹھیک ہے ہماری مذہبی زبان ہے مگر اسلام ہمیں ہر گز یہ درس نہیں دیتا کہ تم اپنی شناخت،اپنے نسل و قبیلے کی شناخت ترک کرکے عربوں کی شناخت اپناؤ۔ قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے: ’’اور ہم نے تمھیں قبائل میں اس لئے تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔‘‘ اس ارشاد سے صاف پتا چلتا ہے کہ اسلام اس کے حق میں نہیں ہے کہ ہم اپنی شناخت ترک کر کے عربی زبان،عربی طورو اطوار اور عربی سٹائل اپنائیں۔ بلکہ اپنی نسل،جغرافئیے اور قبیلے کی شناخت ترک نہ کرنے پہ زور دیا گیا ہے۔ اسلام صرف ان اعمال اور رسموں سے منع فرماتا ہے جو غیر شرعی ہو چاہے وہ کسی بھی قبیلے کے ہو ۔ جس طرح ہمارا ہندوستانی سر زمین کے اوپر ہندوؤں کے ساتھ تنازعہ ہے کہ بھئی یہ سارا ہندوستان ہمارا ہے،صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ،کیونکہ ہم نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔(ہمارے مذہبی طبقے کے وہ افراد جو قائد اعظم کے مخالف تھے،اسی نظرئیے کے حامی تھے ۔ اور ہہی لوگ اردو کو عربی کے رنگ میں رنگنا پسند کرتے ہیں۔) اسی طرح ہمیں دیو ناگری رسم الخط کے استعمال کے اوپر بھی اپنا حق سمجھنا چاہئیے،نہ کہ اس کے استعمال کو ہندوؤں کے ساتھ مشابہت سمجھ کر ترک کرنا چاہیئے۔ سو اردو زبان کا رسم الخط یا تو دیوناگری ہونا چاہیئے یا اگر پھر بھی ہماری یہ سوچ ہے کہ نہیں،دیوناگری رسم لخط ہندومت سے منسوب ہے،ہم تو مسلمان ہیں ،ایک الگ قوم ہیں ،تو پھر ہمیں ایک کمیٹی بنا کر بٹھانی چاہیئے کہ وہ ایک نیا ،منفرد اور علیحٰدہ رسم الخط اردو کے لئے بنائے،نہ کہ عربی رسم الخط میں لکھی جائے۔
No comments:
Post a Comment