سائنس کے مطابق جدید انسانی نسل کا آغاز200,000 سال قبل یعنی تقریباََ 1,97,985 ق م (قبل از مسیح) میں ہوا۔ یہ خیال کہ زمین گول ہے 6ء میں Pythagoras نے پیش کیا جسے درست Ferdinand Magellan نے 1522ء میں ثابت کیا۔ گویا انسان کو اپنی پیدائش کے 1,99,507سال بعد پتا چلا کہ زمین گول ہے۔یہ پتا کہ زمین
سورج کے گرد گھومتی ہے Sir Isaac Newton نے 1688ء میں لگا یا۔یعنی انسان کو اپنی پیدائش کے 1,99,673 سال بعد یہ پتا چلا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ بیکٹیریا کو 1660ء میں Anton Van Leeuwenhoek نے دریافت کیا،یعنی بیکٹیریا نامی کوئی
چیز موجود ہے اس کا پتا انسان کو اپنی پیدائش کے 1,99,645سال بعد چلا۔Schonbein نے 1840ء میں
اوزون کو دریافت کیا،گویا انسان کو اپنی پیدائش کے 1,99,825 سال بعداوزون کے وجود کا ادراک ہوا۔ اس طرح کی ان گنت حقیقتیں ہیں جن کا پتا لگانے کے لئے اس نا قص الحواس اور ضعیف العقل انسان کو ایک لاکھ ،ننانوے ہزار اور کئی سو سال صرف کرنے پڑے۔ جب مخلوق سے وابستہ حقیقتوں کو جاننے کے لئے حضرت انسان کو اتنے سال کی محنت درکار ہوتی ہے تو پھر جسے اس انسان سمیت پوری کائنات کا خالق کہا جائے ،اتنی عظیم ترین ہستی کو سائنسی طور پر دریافت کرنے کے لئے کم سے کم ٹریلن آف ٹریلین (Trillion of Trillion) سال کی ضرورت ہونی چاہیے ناں! کیا خیال ہے؟ تو پریشانی کی کوئی بات نہیں،وجودِ خدا کو سائنس مکمل طور پر دریافت کرلے گا لیکن ذرا گزرنے دے کم سے کم ٹریلن آف ٹریلین سال پر محیط عرصہ۔ اور پھر خالق ِ کائنات کو دریافت کرنے کی بات انسان کو تب کرنی چاہیے جب اِس نے اُس کی بنائی ہوئی تمام کائنات کے کونے کونے میں پڑی ہوئی تمام چیزوں اور ان سے وابستہ تمام حقیقتوں کو کامل طور پر دریافت کیا ہو،اگر کوئی شے باقی ہو تو وہ صرف وجودِخدا ہی ہو۔ حضرت انسان نے تو ابھی تک کائنات اور مخلوقات سے وابستہ اربوں رازوں سے پردہ نہیں اٹھا یا ہے ،ابھی تک تو کائنات سے پوری طرح یہ واقف نہیں ہے، کائنات میں بہت کچھ پڑا ہوا ہے مطالعہ کے لئے ، اور واویلا یہ مچایا ہوا ہے کہ خدا اگر موجود ہے تو سائنسی طور پر ہم اس کے وجود کو کیوں نہیں سمجھ پا رہے۔ واہ رے انسان! تیرا ذہن جب ترقی کر کے وہ درجہ حاصل کرلے کہ کائنات ،اس کی اشیاء اور ان سے وابستہ تمام تر رازوں کو 100% سمجھ لے،اور کائنات کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہ رہے جس کا مطالعہ کرنا باقی ہو،تب کہیں جا کر تیرے دماغ کو وہ طاقت میسّر ہو جائے گی کہ وجودِ خدا کو سمجھ سکے۔ دو ٹکے کے اس چھوٹے سے دماغ کی بس کی بات یہ کہاں ہے بھلا؟ اسی لئے تو مذاہب کا درس ہے کہ وجودِ خدا کے حوالے سے سوال نہ کیا کریں ،بلکہ غیب پر ایمان رکھیں۔ کیونکہ عقلِ انسانی ابھی تک وہ طاقت حاصل نہیں کر پائی ہے کہ وجودِ خدا کو عقلاََ سمجھ سکے۔ وجودِخدا اور اس کی خصوصیات کے مطالعہ کو اگر عقل کی مرہونِ منّت پر چھوڑا جائے تو شاید اس کے لئے اتنا عرصہ درکار ہو کہ کائنات کی عمر ختم ہوجائے گی مگر وجودِخدا کی دریافت ممکن نہ ہو پائے گی۔ اور پھر بھلا ایسا ممکن بھی ہے کیا کہ مخلوق اپنے خالق کے وجود کو سمجھ سکے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کمپیوٹر جس کا خالق انسان ہے،اُٹھ کھڑا ہوجائے اور اپنے خالق یعنی انسان کو اُٹھا کر لیباریٹریوں میں لے جا کر اس کے وجود کا مطالعہ کرے اور اس پر کتابیں لکھ لیں؟ اگر ایسا ممکن ہو اور ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو،تو تب انسان کے لئے بھی اپنے خالق کو دریافت کرنے اور اس کے جسم کا مطالعہ کرنے کا واویلا مچانے کا جواز بنتا ہے۔ انسان تو مخلوق ہے،دوسرے کسی مخلوق کے وجود کو ہی سمجھ سکتا ہے۔ خدا تو صرف اور صرف خالق ہے،مخلو ق تو وہ ہے نہیں ،تو کوئی بھلا اپنے خالق کے وجود کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ ہم نے کمپیوٹر بنایا تو ہمیں پتا ہوتا ہے کہ کمپیوٹر کے اندر ہارڈ ڈسک ہوتا ہے،ریم ہوتا ہے،پروسیسر ہوتا ہے،اور ان کے فلاں فلاں فنکشنز ہوتے ہیں،جبکہ کمپیوٹر یہ نہیں جانتا کہ ہمارے اندر جذبات و احساسات ہوتے ہیں، دل ہوتا ہے،معدہ ہوتا ہے،گُردے ہوتے ہیں اور ان کے فلاں فلاں فنکشنز ہوتے ہیں۔ہم چاہیں تو کمپیوٹر کو آسانی سے کھول کر اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ دیکھ سکتے ہیں،چھو سکتے ہیں،تبدیل کر سکتے ہیں،غرض اس کے ہر حصہ کا جس طرح چاہیں مطالعہ کر سکتے ہیں،جبکہ یہی کام اگر کمپیوٹر ہمارے ساتھ بذاتِ خود ،اپنی مدد آپ کے تحت،بغیر کسی دوسرے انسان یعنی ڈاکٹر وغیرہ کے ملوث ہونے کے،کرنا چاہے تو یقینا نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر ملوث بھی ہو،تب بھی ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے جسم کے کسی حصہ کا مطالعہ کمپیوٹر نے کیا،بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مطالعہ کمپیوٹر کے ’’ ذریعے‘‘ کیا گیا۔ یعنی مطالعہ کیا کسی اور نے،کمپیوٹر کو محض استعمال کیا گیا۔ کمپیوٹر تو انسان کی طرف سے ملنے والے Commands کا محتاج ہوتا ہے،خود بخود اپنی طرف سے کچھ نہیں کرسکتا۔ پس یہ ایک فطری قانون ہے خالق اپنے مخلوق کے وجود سے خوب واقف ہوسکتا ہے مگرمخلوق اپنے خالق کے وجود سے واقف نہیں ہوسکتا۔ اگر مخلوق اپنے خالق کے وجود اور اس کے وجود سے متعلق رازوں سے واقف ہوجائے تو پھر تو خالق ،خالق ہی نہ رہا۔ پھر تو خالق اور مخلوق کا تمیز ختم ہوا۔ اہلِ دانش کے لئے وجودِخدا کو سمجھنے کے حوالے سے کسی شاعر کا یہ ایک مصرع بھی کافی ہے ’’ جو سمجھ میں آگیا وہ پھر خدا کیونکر ہوا‘‘۔ جس کا وجود اتنے معمولی سطح کا ہوکہ انسان اپنے ناقص حواس اور ضعیف عقل کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر وہ خدا کیسے کہلایا جا سکتا ہے؟
سورج کے گرد گھومتی ہے Sir Isaac Newton نے 1688ء میں لگا یا۔یعنی انسان کو اپنی پیدائش کے 1,99,673 سال بعد یہ پتا چلا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ بیکٹیریا کو 1660ء میں Anton Van Leeuwenhoek نے دریافت کیا،یعنی بیکٹیریا نامی کوئی
چیز موجود ہے اس کا پتا انسان کو اپنی پیدائش کے 1,99,645سال بعد چلا۔Schonbein نے 1840ء میں
اوزون کو دریافت کیا،گویا انسان کو اپنی پیدائش کے 1,99,825 سال بعداوزون کے وجود کا ادراک ہوا۔ اس طرح کی ان گنت حقیقتیں ہیں جن کا پتا لگانے کے لئے اس نا قص الحواس اور ضعیف العقل انسان کو ایک لاکھ ،ننانوے ہزار اور کئی سو سال صرف کرنے پڑے۔ جب مخلوق سے وابستہ حقیقتوں کو جاننے کے لئے حضرت انسان کو اتنے سال کی محنت درکار ہوتی ہے تو پھر جسے اس انسان سمیت پوری کائنات کا خالق کہا جائے ،اتنی عظیم ترین ہستی کو سائنسی طور پر دریافت کرنے کے لئے کم سے کم ٹریلن آف ٹریلین (Trillion of Trillion) سال کی ضرورت ہونی چاہیے ناں! کیا خیال ہے؟ تو پریشانی کی کوئی بات نہیں،وجودِ خدا کو سائنس مکمل طور پر دریافت کرلے گا لیکن ذرا گزرنے دے کم سے کم ٹریلن آف ٹریلین سال پر محیط عرصہ۔ اور پھر خالق ِ کائنات کو دریافت کرنے کی بات انسان کو تب کرنی چاہیے جب اِس نے اُس کی بنائی ہوئی تمام کائنات کے کونے کونے میں پڑی ہوئی تمام چیزوں اور ان سے وابستہ تمام حقیقتوں کو کامل طور پر دریافت کیا ہو،اگر کوئی شے باقی ہو تو وہ صرف وجودِخدا ہی ہو۔ حضرت انسان نے تو ابھی تک کائنات اور مخلوقات سے وابستہ اربوں رازوں سے پردہ نہیں اٹھا یا ہے ،ابھی تک تو کائنات سے پوری طرح یہ واقف نہیں ہے، کائنات میں بہت کچھ پڑا ہوا ہے مطالعہ کے لئے ، اور واویلا یہ مچایا ہوا ہے کہ خدا اگر موجود ہے تو سائنسی طور پر ہم اس کے وجود کو کیوں نہیں سمجھ پا رہے۔ واہ رے انسان! تیرا ذہن جب ترقی کر کے وہ درجہ حاصل کرلے کہ کائنات ،اس کی اشیاء اور ان سے وابستہ تمام تر رازوں کو 100% سمجھ لے،اور کائنات کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہ رہے جس کا مطالعہ کرنا باقی ہو،تب کہیں جا کر تیرے دماغ کو وہ طاقت میسّر ہو جائے گی کہ وجودِ خدا کو سمجھ سکے۔ دو ٹکے کے اس چھوٹے سے دماغ کی بس کی بات یہ کہاں ہے بھلا؟ اسی لئے تو مذاہب کا درس ہے کہ وجودِ خدا کے حوالے سے سوال نہ کیا کریں ،بلکہ غیب پر ایمان رکھیں۔ کیونکہ عقلِ انسانی ابھی تک وہ طاقت حاصل نہیں کر پائی ہے کہ وجودِ خدا کو عقلاََ سمجھ سکے۔ وجودِخدا اور اس کی خصوصیات کے مطالعہ کو اگر عقل کی مرہونِ منّت پر چھوڑا جائے تو شاید اس کے لئے اتنا عرصہ درکار ہو کہ کائنات کی عمر ختم ہوجائے گی مگر وجودِخدا کی دریافت ممکن نہ ہو پائے گی۔ اور پھر بھلا ایسا ممکن بھی ہے کیا کہ مخلوق اپنے خالق کے وجود کو سمجھ سکے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کمپیوٹر جس کا خالق انسان ہے،اُٹھ کھڑا ہوجائے اور اپنے خالق یعنی انسان کو اُٹھا کر لیباریٹریوں میں لے جا کر اس کے وجود کا مطالعہ کرے اور اس پر کتابیں لکھ لیں؟ اگر ایسا ممکن ہو اور ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو،تو تب انسان کے لئے بھی اپنے خالق کو دریافت کرنے اور اس کے جسم کا مطالعہ کرنے کا واویلا مچانے کا جواز بنتا ہے۔ انسان تو مخلوق ہے،دوسرے کسی مخلوق کے وجود کو ہی سمجھ سکتا ہے۔ خدا تو صرف اور صرف خالق ہے،مخلو ق تو وہ ہے نہیں ،تو کوئی بھلا اپنے خالق کے وجود کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ ہم نے کمپیوٹر بنایا تو ہمیں پتا ہوتا ہے کہ کمپیوٹر کے اندر ہارڈ ڈسک ہوتا ہے،ریم ہوتا ہے،پروسیسر ہوتا ہے،اور ان کے فلاں فلاں فنکشنز ہوتے ہیں،جبکہ کمپیوٹر یہ نہیں جانتا کہ ہمارے اندر جذبات و احساسات ہوتے ہیں، دل ہوتا ہے،معدہ ہوتا ہے،گُردے ہوتے ہیں اور ان کے فلاں فلاں فنکشنز ہوتے ہیں۔ہم چاہیں تو کمپیوٹر کو آسانی سے کھول کر اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ دیکھ سکتے ہیں،چھو سکتے ہیں،تبدیل کر سکتے ہیں،غرض اس کے ہر حصہ کا جس طرح چاہیں مطالعہ کر سکتے ہیں،جبکہ یہی کام اگر کمپیوٹر ہمارے ساتھ بذاتِ خود ،اپنی مدد آپ کے تحت،بغیر کسی دوسرے انسان یعنی ڈاکٹر وغیرہ کے ملوث ہونے کے،کرنا چاہے تو یقینا نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر ملوث بھی ہو،تب بھی ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے جسم کے کسی حصہ کا مطالعہ کمپیوٹر نے کیا،بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مطالعہ کمپیوٹر کے ’’ ذریعے‘‘ کیا گیا۔ یعنی مطالعہ کیا کسی اور نے،کمپیوٹر کو محض استعمال کیا گیا۔ کمپیوٹر تو انسان کی طرف سے ملنے والے Commands کا محتاج ہوتا ہے،خود بخود اپنی طرف سے کچھ نہیں کرسکتا۔ پس یہ ایک فطری قانون ہے خالق اپنے مخلوق کے وجود سے خوب واقف ہوسکتا ہے مگرمخلوق اپنے خالق کے وجود سے واقف نہیں ہوسکتا۔ اگر مخلوق اپنے خالق کے وجود اور اس کے وجود سے متعلق رازوں سے واقف ہوجائے تو پھر تو خالق ،خالق ہی نہ رہا۔ پھر تو خالق اور مخلوق کا تمیز ختم ہوا۔ اہلِ دانش کے لئے وجودِخدا کو سمجھنے کے حوالے سے کسی شاعر کا یہ ایک مصرع بھی کافی ہے ’’ جو سمجھ میں آگیا وہ پھر خدا کیونکر ہوا‘‘۔ جس کا وجود اتنے معمولی سطح کا ہوکہ انسان اپنے ناقص حواس اور ضعیف عقل کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر وہ خدا کیسے کہلایا جا سکتا ہے؟
No comments:
Post a Comment