السلام علیکم۔ تجسس فورم میں خوش آمدید اور ویلکم۔۔۔ تجسس فورم پر آپ پا سکتے ہیں ۔۔۔ الف۔قومی اور بین الاقوامی امور سے متعلق خبریں و معلومات ، جنرل نالج اورشعر و شاعری سے متعلق مواد۔۔۔۔ب۔مختلف بہترین تجزیہ نگاروں کے خیالات پر مبنی کالم /مضامین/آرٹیکلز۔۔۔ج۔تعلیم ،درس و تدریس اورآئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سےمتعلق مواد جن میں پی ڈی ایف بکس/نوٹس،ٹیوشن وٹیوشن ٹیچرز/ٹیوٹرز،تعلیمی اداروں ،ڈیٹ شیٹس وامتحانات کے نتائج سے متعلق معلومات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔فی الحال اس فورم کا یہی ایک ہی ویب سائٹ ہے۔ مستقبل قریب میں ایک روزنامہ اخبار اور ایک ماہنامہ رسالہ بھی لانچ کرنے کا ارادہ ہے ان شا اللہ۔

Friday, September 2, 2016

مولانا فضل الر حمان صاحب کا کردار

تحریر: ارشد خان آستِکؔ(لیدبیرؔ) اردو شاعر و کالم نگار

میں بچپن سے علمائے کرام سے الحمداللہ خصوصی لگاو رکھتا ہوں،علمائے کرام اچھے لوگ ہوتے ہیں،مگرجس طرح ہر طبقے کے اندر کالی بھیڑیں ہوتی ہیں،اسی طرح یہ طبقہ بھی ان سے خالی نہیں ہے۔ محض کسی کا عالم ہونا اس کے لئے کافی نہیں کہ وہ تقوٰی دار بھی ہوا۔ اور جس طرح ایک ہاتھ کی پانچ انگلیاں بھی ایک جیسی نہیں
ہیں،اسی طرح سارے علما بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مجھے محبت ان علما سے ہے جو غیر سیاسی ہیں،جو صرف اور صرف تبلیغ، صوفی ازم کے شعبے یا دینی مدارس و مساجد کو چلانے یا مسلمانوں کے اصلاح کے دوسرے ایکٹیویٹیز سے وابستہ ہوں۔جن کا مقصد صرف اور صرف سیاست ہی ہو اور دین کو بھول چکے ہو،ایسے
علما سے مجھے کوئی محبت نہیں ہوتی۔ سیاست کو انگلش میں Politicsکہتے ہیں،جو کہ یونانی زبان کے دو الفاظ کا ماخوذ ہے،Poly,جس کا مطلب ہے ’’کئ‘‘ اور Ticaجس کا مطلب ہے ’’چہرے‘‘ یعنی ’’کئی چہرے‘‘ بنائے رکھنے کا ہنر۔ جس کو سادہ الفاظ میں منافقت کہتے ہیں۔تو سیاست نام ہی منافقت کا ہے،تو بھلا ایسا کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص سیاستدان بھی ہو اور پارسا بھی ہو۔ پارسا لوگ اس فیلڈ میں چل ہی نہیں سکتے،وہ جلد ہی یا تو یہ فیلڈ چھوڑ دیتے ہیں،یا پھر انہیں قتل کردیا جاتا ہے یا پھر ایک ناکام سیاستدان کی حیثیت سے موجود رہتے ہیں،جتنا کوئی کامیاب سیاستدان ہو،سمجھیں کہ اتنا ہی وہ منافق ہے۔ اسی وجہ سے جہاں تک مولانا فضل الرحمان صاحب کا تعلق ہے،تو میں میرے ان تمام دوستوں سے جو جے یو آئی کا حصہ ہیں، اور میرے لئے ہر لحاظ سے قابل احترام ہیں (جے یو آئی میں میرے نہایت سویٹ فرینڈز موجود ہیں) نہایت معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں مولانا فضل الرحمان کے کردار سے قطعاَ مطمئن نہیں ہوں۔میرے ایک ایسے ہی پیارے دوست جنید رحمان سے جب میں نے یہ کہا تو اس نے کہا کہ اچھا تو پھر ثابت کروکہ کس طرح مولانا فضل الرحمان کو آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ دوست کی اس بات نے مجھے یہ آرٹیکل لکھنے پہ مجبور کیا،پس یہ آرٹیکل میں نے اس دوست سمیت ان تمام دوستوں کے لئے جواب کے طور پر لکھ لیا جن کے ذہنوں میں یہ سوال ہے۔ اب ان سے عرض ہے کہ وہ مولانا صاحب کو صحیح انسان ثابت کرنے کے لئے بھی،محض یہ نہ کہیں کہ میرا قائد تو اِتنا اچھا ہے،میرا قائد تو اُ تنا اچھا ہے،میرے قائد سے تم لوگ جلتے ہو،اور نہ تہذیب کا دامن ہاتھ سے جانے دے کر گالیاں دیں،اور نہ اپنی جذبات کا اظہار کریں کہ تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ مولانا کے جان نثار ختم ہوچکے ہیں،تم کچھ بھی کہو ہم مولانا صاحب پہ جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں،اور نہ کسی دوسرے سیاسی لیڈر(مثلاَعمران خان) کی کردار کشی کریں، بلکہ اس طرح کا ایک علمی آرٹیکل لکھ کر مجھے مولانا صاحب کو صحیح انسان ماننے کے لئے قائل کریں۔ اگر وہ صحیح انسان ہیں اور میں ان کو غلط سمجھ کر غلطی پر ہوں تو میں مجھے ان کو صحیح ماننے کے لئے قائل کرنے والوں کا شکرگزار ہوں گا اگر مجھے قائل کیا گیا۔ میرے اس آرٹیکل کا مقصد ہر گز کسی دوسرے سیاسی لیڈر کی حمایت کرنا بھی نہیں ہے۔ لیکن غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہتا ہوں۔ میری نظر میں موجود زندہ سیاسی رہنماوں میں سے کوئی بھی ٹھیک کردار کا حامل نہیں ہے۔ لیکن میرے ساتھ بحث جو کر رہا تھا اس کا مقصد مجھے اس پہ قائل کرنا تھا کہ باقی سیاستدان ٹھیک لوگ نہیں ہونگے لیکن مولانا صاحب ٹھیک انسان ہیں،جبکہ میں اپنی بات پہ ڈٹا رہا کہ نہیں سارے سیاستدان ایک حمام کے ننگے ہیں، تو اس دوست نے کہا،یعنی آپ مولانا صاحب کو بھی ٹھیک نہیں سمجھ رہے،تو میں نے کہا ہاں بالکل،تو اس نے کہا ثابت کرو،کس طرح وہ غلط ہے؟ پس اس سلسلے میں مجھے یہ آرٹیکل لکھنا پڑا۔ سب سے گزارش ہے کہ پڑھیں ضرور تا کہ اگر میں غلطی پر ہوں تو میری رہنمائی کریں اور اگر خود غلطی پر ہیں تو اپنی اصلاح کریں ۔

۱)صحیح مسلم میں ہے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت اس طرح ہے:
’’چار چیزیں ہیں :جس شخص میں وہ ہوں خالص منافق ہوتا ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں سے کوئی ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب اسے امانتدار سمجھا جائے تو خیانت ،جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب عہد کرے تو اسے توڑ ڈالے اور جب جھگڑے تو بد زبانی کرے۔‘‘

۲)ابی ذر (رضی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ کسی دوسرے مسلمان کو فاسق یا کافر کہنے والا خود فاسق یا کافر ہوجاتا ہے۔ (صحيح بخاري:6045, بَاب مَا يُنْهَى مِنْ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ)

۳)ایک اور حدیث میں ہے کہ دنیا میں انسان نے جن لوگوں کی مشابہت اختیار کی(اس سے مراد صحبت بھی ہوسکتی ہے،ان کے گروہ میں شمولیت بھی ہوسکتی ہے،ان سے محبت بھی ہوسکتی ہے) تو قیامت کے دن بھی وہ شخص انہی لوگوں کے صف میں اٹھے گا،یعنی اس کا حشرا نہی لوگوں کے ساتھ ہوگا۔

۴)“حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے سرور عالم نے فرمایا۔۔۔۔ جو کوئی کسی مسلمان کی آبروکو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ” ۔ ( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )

۵)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔ کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2011)۔

۶)” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ ) صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1022(۔

اب مولانہ فضل ارحمان کی کردار پہ غور کریں:

۱) عمران خان یہودی ایجنٹ ہے(ٖفضل الرحمان)۔
تشریح: یہودی ایجنٹ کا مطلب فاسق بھی نہیں کافر ہے۔

۲)جمائمہ طلاق ملنے کے باوجود عمران سے ملتی ہے،یہ کونسا اسلامی اور مشرقی اصول ہے؟ (فضل الرحمان)
تشریح: صرف اشد ضرورت کی وجہ سے ملنا تو ظاہر سی بات ہے نہ اسلام میں معیوب سمجھا جاتا ہے،نہ مشرقیات میں،جو ملنا معیوب سمجھا جاتا ہے وہ ہے جنسی حاجت پوری کرنے کے لئے ملنا۔ تو کیا مولانہ صاحب کو غیبی علم کے ذریعے پتا تھا کہ جمائمہ طلاق یافتہ ہونے کے با وجود عمران سے جنسی تعلق رکھتی ہے؟ یہ بہتان نہیں ہوا کیا؟ اور اگر یہ سچ بھی ہے تو پھر بھی کیا یہ غیبت نہیں ہوئی؟ یہ بد زبانی،بد گمانی اور مسلمان بھائی کی کردار کشی نہیں ہوئی؟

۳)عمران مغربی ذہنیت رکھتا ہے،پاکستان کو ایک بے حیا ملک بنانا چاہتا ہے( فضل الرحمان)
تشریح: کیا مولانہ صاحب لوگوں کے دلوں کے حال سے واقف ہے؟ پھر وہی بات اگر یہ جھوٹ ہے تو یہ بہتان ہوا اور اگر سچ ہے تو یہ غیبت ہوئی۔ یا بد گمانی اور مسلمان بھائی کی کردار کشی ہوئی۔

۴) پہلے:عوامی نیشنل پارٹی والے تو ہندووٗں کے سے،اور سیکولر عقائد رکھتے ہیں۔ (جے یو آئی)
بعد میں: عوامی نیشنل پارٹی اور ہم ساتھ ساتھ چلیں گے۔ ہم تو بھائی بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلب پہلے نیشنل پارٹی سے دشمنی رکھ کر اپنے پارٹی اور نیشنل پارٹی کے بے وقوف کارکنوں کو خوب لڑوانا آپس میں اور جب یہ خوب لڑ چکے تو پھر نیشنل پارٹی کے ساتھ یاری کرنا جس کے سربراہ اسفندیار ولی خان کھل کر کہہ چکے ہیں کہ میں ذاتی طور پر کسی مذہب کا حمایتی نہیں ہوں،اپنے اسی بیان کی وجہ سے ڈر کے مارے آج وہ بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ سیکولر انسان کے ساتھ اتحاد کرنے والا مولی تو دور کی بات مسلمان ہی بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ اور ان کے ساتھ اتحاد کرنے سے حدیث کے مطابق کیا قیامت کے دن اس کا حشر ان کے ساتھ نہیں ہوگا؟ یہ حدیث صرف عام آدمی کے لئے ہیں کیا؟

۵) مشرف برا ہے،امریکہ کا یار ہے،مدارس ختم کر رہا ہے۔ ایک طرف یہ کہنا،تو دوسری طرف اسی مشرف کی حکومت کا نہ صرف حصہ رہ کر اسی سے تنخواہ لے کر اس کا نمک کھانا بلکہ جب مشرف اپنے آپ کو منتخب کرنے کے لئے الیکشن لڑتا ہے تو اس میں بھی مشرف کی حمایت کر کے اسے منتخب کرنا۔ اور ایک طرف مدرسوں کے غم میں مرنے کا ڈھنڈورا پیٹھنا تو دوسری طرف لال مسجد جسیے بڑے سانحے پر خاموشی اختیار کرنا یا معمول کے مطابق محض ایک احتجاجی بیان دینا۔ اور اب بھی اسی مشرف حکومت کا حصہ رہنا،استعفیٰ دینے کا دل نہ کرنا۔ کوئی معترض اگر کہے کہ مولانا صاحب نے تو لال مسجد کی انتظامیہ سے کئی ملاقاتیں کر کے بہت کوشش کی کہ یہ واقعہ رونما نہ ہو،تو اول بات تو یہ ہے کہ ملاقات انہوں نے کسی ثالث کے طور پہ نہیں کی بلکہ حکومت کی طرف سے ایک وفد کے طور پہ کی، باقاعدہ حکومتی ارکان کے ساتھ حکومتی پروٹوکول لئے لال مسجد والوں سے ملاقاتیں کرتا تھا،حکومتی وفد کے طور پہ اور ثالث کے طور پہ ملاقات میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔حکومتی وفد صرف یہ کہنے کے لئے ملاقات کرتی ہے کہ بھئی سدھر جاو نہیں تو انجام برا ہوگا،جبکہ ثالث کا مقصد دونوں فریقین کو غلطی کا احساس دلا کر ان کے درمیان صلح کرنا ہوتا ہے۔ ثالث کے طور پہ یہ ملاقاتیں کرتا تو حکومت پہ بھی تنقید کرتا اور حکومت کو بھی جارحانہ رستہ اختیار کرنے سے روکتا،اور حکومت اس کی بات بھی مانتی اگر اسے ثالث منتخب کیا گیا ہوتا۔ اور اگر ثالث کا کردار بھی ادا کیا ہے تو کیوں ادا کیا ہے؟ ایک عام مسلمان بھی نہیں بلکہ مولانا ہونے کی حیثیت سے کیا وہ لال مسجد والوں کی حمایت نہیں کر سکتا تھا؟ کونسا غلط مطالبہ وہ کر رہے تھے بھلا،شریعت کے نفاذ کا ہی تو مطالبہ تھا،ہونا چاہیئے تھا کہ مولانا تو اس میں سب سے آگے ہوتے۔ لیکن نہیں،چونکہ اس معاملے میں اللہ کی خاطر مار پیٹ کھانااور اپنا خون بہانے کا خطرہ تھا،تو مولانا جیسے کمزور ایمان والا شخص کب اپنے نفس کے اوپر یہ سختیاں برداشت کرسکتا تھا؟ دوسری بات یہ کہ اگر ہم باالفرض مان بھی لیں کہ چلو مولانا صاحب نے حکومت اور لال مسجد کےدرمیان واقعی ایک مخلص ثالث کا کردار ادا کیا تو پھر بات یہ ہے کہ کیا مولانا کی ذمہ داری بس یہی تک تھی؟ جب حکومت اور لال مسجد کے درمیان صلح کی کوششیں ناکام ہوئیں اور حکومت آپریشن شروع کر کے معصوم لوگوں کا قتلِ عام شروع کر گئی تو مولانا صاحب کو ہر ممکن احتجاج کرنا چاہیئے تھا،اس کو باقاعدہ لال مسجد کے سامنے نڈر ہو کر کھڑا ہو کر کہنا چاہیئے تھا کہ لال مسجد پہ گولیاں برسانے سے پہلے حکومت میرے سینے پہ گولیاں برسائے گی۔اور اگر یہ بھی اس کے بس میں نہیں تھا تو کم سے کم حکومت کا بائکاٹ کرلیتا اور اسمبلیوں سے استعفٰی دے دیتا۔

۶) نواز شریف دنیا بھر کے امیر ترین افراد میں جو شمار ہوتا ہے تو یہ دولت اس کو باپ سے ورثے میں نہیں ملی ہے،کرپشن کر کر کے اکھٹی ہے،بچہ بچہ جانتا ہے،چور ہے،لٹیرا ہے،ایسے شخص کے ساتھ حکومت میں شامل ہونا اور دوست رہنا،اگر عمران خان نے اسلام کے لئے کچھ نہیں کیا ہے تو نواز شریف کونسا مسلمانوں کا پانچواں امام ہیں؟ کیا جواز بنتا ہے دین کے نام پر نواز شریف کے ساتھ شامل ہونے کا؟ اسی طرح زرداری کی حکومت میں زرداری جیسے انٹرنیشنل چور جو یورپ میں بھی ۱۰ پرسنٹ کے نام سے مشہور ہے کا یار رہنے کا؟ اب کیا حدیث کے مطابق قیامت کے دن اس کا حشر ان کے ساتھ نہیں ہوگا؟

۷)اول تو مدرسوں کا تحفظ یہ کرتا ہی نہیں،لیکن اگر باالفرض کرتا بھی ہو،تو ان کے منشور میں جو باقی نکات ہوتے ہیں عوامی فلاح و بہبود کے لئے،ووٹ تو عوام ان سارے نکات کو مد نظر رکھ کر ان کو دیتے ہیں،صرف مدرسوں کے لئے لڑنے اور باقی اپنے حلقوں کے لئے کچھ نہ کرنے کے لیئے تو ووٹ نہیں دیا جاتا انھیں۔ اور اگر وہ ووٹ منشور میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے دلکش نکات پہ حاصل کرلیتے ہیں اور پھر کرتے صرف مدرسوں کی حفاظت ہیں،باقی کچھ نہیں تو کیا یہ ووٹ کی امانت کے ساتھ خیانت نہیں ہے؟

۸) آیئن کے تناظر میں پی ٹی آئی اسمبلیوں سے استعفے دے دیں،ایک طرف یہ کہنا تو دوسری طرف یہ کہنا کہ اسی آیئن کی تناظر میں ایم کیو ایم استعفے واپس لے لیں۔ ایم کیو ایم کی حمایت کرنا اور منا کر اسمبلی میں دوبارہ لانا جس کے اوپر پوری دنیا گواہ ہے کہ دہشتگرد اور غدار پاکستان پارٹی ہے۔ایسی پارٹی کے ساتھ یاری کرنے پر کیا حدیث کے مطابق قیامت کے دن اس کا حشر ان کے ساتھ نہیں ہوگا؟

مجھے کوئی مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں اب:

۱) آج ایک کا دوست بن کر دوستی نبھائے رکھنے کا عہد کرنا اور کل پھر اس کے ساتھ دوستی ختم کر کے کسی اور کا دوست بننا،یعنی جب تک کسی سے مفاد وابستہ ہو تو دوست نہ ہو تو دوستی ختم،یہ خود غرضی، وعدہ خلافی،جھوٹ اور خیا نت کے زمرے میں نہیں آتا کیا؟

۲) لوگوں سے ووٹ لوگوں کی فلاح و بہبود کے نام پر لینا اور پھر خدمت صرف دینی مدارس کی کرنا،نہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف منہ کھولنا،نہ کرپشن کے خلاف،نہ بے روزگاری کے خلاف۔ اور پھر دینی مدرسوں کی خدمت کا بھی یہ حال ہے کہ لال مسجد جیسا بڑا سانحہ رونما ہونا اور مولانا کا مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا اور اسی حکومت میں ہھر بھی رہنا جس نے یہ اقدام اٹھا یا ہو،کیا یہ عوام کے ووٹ کے ساتھ خیانت نہیں ہے؟

۳)اسلام اور اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پہ ووٹ مانگنا اور ووٹ لینے کے بعد کسی چور اور لٹیرے (مثلاَ نوازشریف،زرداری،مشرف،وغیرہ وغیرہ)کے صف میں شامل ہونا،کیاعوام کے ووٹ کے ساتھ خیانت نہیں اور جھوٹاپن نہیں ہے؟

۴) ایک طرف پاکستان کے ہر حکومت کو غیر اسلامی قرار دے کر اسی نام پہ سیاست کرنا کہ اسلام کے صحیح نفاذ کے لئے ہمارا ساتھ دیں تو دوسری طرف اسی غیر اسلامی حکومت کا حصہ بننا کیا منافقت نہیں ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ کیا ہر حکومت ٹھیک ہوتی ہے جو یہ ہر حکومت کا حصہ بنتا ہے؟ یہ مولانا صاحب کا ریکارڈ ہے کہ یہ ہر حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہے اس مولانا صاحب کو اس سے کوئ لینا دینا نہیں کہ حکومت نیک انسان کی ہے یا ڈاکو کی،حاکم عوام کو فائدہ دے رہا ہے یا نقصان ،لیکن بس اس کو اس میں ایک کرسی چاہیئے۔ بھئی عوام کے لئے احساس نامی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ عوام مرے یا جئے مجال ہے کہ کبھی مولانا صاحب عوام کی خاطر غیرت میں آکر حکومت کا بائیکاٹ کر لے۔

۵) اللہ کے گھر مسجد پر حکومتِ وقت بمباری کر کے نہ صرف مسجد کو شہید کرتی ہے بلکہ وہاں پڑے ہوئے قرآن کے جلے ہوئے نسخے اسلام آباد کی نالیوں میں سے بہا دیتی ہے اور معصوم طلبا اور طالبات کو جلا کر بھسم کردیتی ہے،اور ایک شخص مولی ہوتے ہوئے،اور کافی مشہور مولوی ہوتے ہوئے ان سب کچھ کو خاموش تماشائی بن کر بس دیکھتا رہے اور اف قدرے نہ کہے،حالانکہایک مولوی، اسلام سے محبت کے دعویدار اور پاکستانی مسلمانوں کے واحد رہنما جو ملکی سیاست میں باقاعدہ ایکٹیو ہو،کی حیثیت سے اس موقعے پہ تو اسے اپنا سینہ ڈھال بنا کر پیش کرنا چاہئے تھا۔ یا پھر کم سے کم استعفٰی دے دیتا۔ اور اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو کیا وہ اسلام سے محبت کے دعوے میں جھوٹا نہیں ہوا؟ پتا تو ایسی ازمائشوں میں چلتا ہے،ورنہ اسلام سے محبت کا دعویدار تو ہر کوئی ہے۔

مولانہ کے کردار کو ان کے عاشقوں کی جانب سے جان بوجھ کر پارسا ثابت کرنے کے لئے جواز اور ان کے جوابات:

جواز۔1: یہ جتنی منافقت یہ کرتا ہے،جھوٹ بولتا ہے،یہ کوئی ذاتی فائدے کے لئے نہیں،دین اور مدرسوں کی حفاظت کے لئے سیاست کے میدان میں بھی ایک مولوی کا ہونا ضروری ہے،پاکستان میں دین مولانا فضل الرحمان کے دم سے ہی ہے اگر یہ سیاست میں نہ ہوتے تو کب کے دین کو ختم کردیا ہوتا زانی اورشرابی سیاستدانوں نے۔ پس یہ جتنا جھوٹ بولتا ہے اور جتنی منافقت کرتا ہے یہ مسجد،مدرسے اور دین کو بچانے کی خاطر کرتے ہیں۔

جواب: بھئی پہلے تو عشق کے اندھے پن سے ذرا نکل کر اپنا عقیدہ درست کرے،دین کو صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دینا میں کہیں پر بھی ہو،اللہ نے بچا کے رکھا ہوا ہے،ہاں بندے سبب بنتے ہیں مگر یہ کہنا کہ دین فلاں بندے کے دم سے ہی محفوظ ہے،غلط عقیدہ ہے،دین کی حفاظت کا ذمہ ایک خاص وقت تک اللہ نے خود اٹھا یا ہے،انا نحن نزالنا الذکر و انا لہ لحٰفظون(القرآن)۔ اگر مولانا نہیں تو کوئی اور خدا پیدا کرلے گا دین کی حفاظت کے لئے اور خدا نے کسی خطے سے دین کے خاتمے کا فیصلہ کیا تو پیغمبر اسے نہیں بچا سکے ہیں،ایک عالم کیا بچائے گا۔ دوسری بات یہ کہ دین کی حفاظت کے لئے ہزاروں لوگ کام کر رہے ہیں،سب کا کریڈٹ صفر قرار دے کر صرف مولانا فضل الرحمان کو کریڈٹ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ اور ذرا یہ بتایئں کہ مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ پہ اب تک کتنے لوگ مسلمان ہوچکے ہیں؟ دین کے لئے حقیقی معنوں میں کام وہی لوگ کر رہے ہیں جن کے ہاتھوں پہ لوگ مسلمان ہو رہے ہوں،یا پھر جو دین کی خاطر ہتھیار اٹھا کر اپنی جانیں لٹا رہے ہیں،جن کا نام سن کر بھی کافر کانپ اٹھتے ہیں، دوسری بات یہ کہ دین کی حفاظت کی خاطر جھوٹ اور منافقت کا رستہ اختیار کرنا کس صحابی یا نعوذباللہ کہیں رسول (ص) سے ثابت ہے؟ وہ الگ مسلہ ہے کہ نہایت مجبوری کی حالت میں کوئی جھوٹ بولا جائے لیکن اسلام اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا،بلکہ قرآن کے اس ارشاد سے ایسے اعمال کی مذمت کی گئی ہے کہ’’یہ یہود ہو نصٰرٰی (کافر) آپ سے کبھی خوش نہیں ہونگے،یہاں تک کہ آپ ان کے لئے اپنا دین چھوڑ دے‘‘ تو کیا ہم ان کو خوش رکھنے کے لئے کہ یہ ہمارے مدرسوں اور مسجدوں کو کچھ نہ کہیں،جھوٹ اور منافقت سے کام لیں گے،ان کی مشابہت اختیار کریں گے؟ اس اصول کے مطابق تو محض جھوٹ اور منافقت اختیار کرنے سے بات نہیں بنتی،پھر تو ہمیں اپنا پورا دین ہی ترک کرنا چاہیئے ان کے لئے،تا کہ یہ ہم سے مکمل خوش ہو جائے اور ہمارے مدرسوں اور مسجدوں کو کچھ نہ کہیں۔

جواز۔2: دین میں تو سیاست ہے،مولانا صاحب کوئی آوٹ آف دین کام تو نہیں کر رہے ہیں۔

جواب: دین میں سیاست بے شک ہے مگر مغربی طرز کی سیاست، جمہوریت اور ووٹنگ سسٹم جو پاکستان میں رائج ہے،کے لئے دین میں کوئی جگہ نہیں ہے،اور یہ سسٹم نہ نبی پاک(ص) کی ریاست مدینہ سے ثابت ہوا ہے،نہ خلفائے راشدین کی حکومتوں سے۔ اگر کوئی ثابت کرسکتا ہے تو کر لے۔ ان کے ادوار سے ’’خلافت‘‘ کا سسٹم ثابت ہوتا ہے۔ مغربی طرز کی جمہوری سیاست(جو کہ پاکستان میں رائج ہے) اور خلافت کی سیاست جو کہ دین میں ہے،میں زمین اور آسمان کا فرق ہے،اِس میں ووٹنگ سے حاکم کا انتخاب ہوتا ہے،اُس میں مجلس شورٰی(جو کہ خاص عالم فاضل اور متقی و پرہیزگار لوگوں پر مشتمل کمیٹی ہوتی ہے)انتخاب کرتی ہے حاکم کا،اِس میں حاکم ایک خاص مدت کے لئے منتخب ہوتا ہے،اُس میں تا حیات منتخب ہوتا ہے،اِس میں رائے دہی کا حق ہر بالغ انسان کو حاصل ہے،چاہے وہ جاہل ہو،ان پڑھ ہو یا پھر تعلیم یافتہ ہو،بوڑھا ہو یا پھر جوان ہو،نیک عمل والا ہو یا خراب عمل والا،مسلمان ہو یا کافر،جب کہ اُس میں رائے دہی کا حق صرف اور صرف مجلس شورٰی کے ارکان کو حاصل ہوتا ہے،اِس میں حاکم خود اپنی کمپین چلا کر باقاعدہ سے اپنی اچھائی کے دعوے کرتا رہتا ہے،اور اپنی تعریف کر کے اپنے منہ میاں مٹھو والا معاملہ ہوتا ہے،یعنی خود کہتا ہے کہ میں ہی حاکم بننے کا اہل ہوں،جب کہ اُس میں ایسے شخص کو تلاش اور پھر راضی کیا جاتا ہے جو حاکم بننے سے بھاگا کرے اور یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہ ہو۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے فرق ہیں،میں کس کس کا ذکر کروں گا،اور اس وقت میرے کالم کا موضوع بھی یہ نہیں ہے۔ پس خلافت کے علاوہ کوئی بھی سیاسی سسٹم کم سے کم اسلامی سسٹم نہیں کہلایا جا سکتا۔ اور ایک غیر اسلامی اور کفری سسٹم کا حصہ بننے والے شخص کو متقی سمجھنا تو دور کی بات،ایسے شخص کے تو مسلمان ہونے پر بھی شک کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی اچھا مسلمان اس سسٹم کے اینٹی اسلامک ہونے کی وجہ سے اس کا حصہ بن ہی نہیں سکتا۔

جواز۔3: ہمیں پتا ہے پا کستان میں نافذ العمل مغربی طرز کے سیاسی،جمہوی اور ووٹنگ سسٹم کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں لیکن ہم تو اس لیے اس سسٹم کا حصہ بن رہے ہیں کہ ہمیں جب اس سسٹم کے ٹاپ کا عہدہ کہیں مل جائے تو ہم یہ سسٹم تبدیل کردینگےْ

جواب: بھئی سسٹم کا حصہ بننے سے سسٹم کمزور نہیں طقتور ہوتا ہے،کیوں کہ سسٹم کو اختیار کئے رکنھے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور اگر آپ نے سسٹم کی مخالفت کی نیت سے سسٹم کو جوائن کیا ہوا ہے تو یقینا آپ سے مخالفانہ کام بھی سر زد ہونگے، ایسے میں آپ کو یہ سسٹم اتنا ٹائم اپنے اندر رہنے کے لیے نہیں دے سکتا کہ آپ اس میں ٹاپ کے عہدے تک پہنچ جائے بلکہ یہ سسٹم آپ کو نکال باہر کردے گا۔اور اگر آپ اعلٰی عہدہ ملنے کے لئےسسٹم کا حصہ ہیں،اگر چہ اعلٰی عہدہ آپ سسٹم میں اچھی تبدیلی کی نیت سے حاصل کرنے کے خواہاں ہیں،تو تب آپ کو سسٹم سے وفاداری کا یقین دلانے کی خاطر غلط سسٹم کے بہت سے گناہوں کو سر انجام دینا ہوگا، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی اس لیئے ڈاکہ یا چوری کرے کہ ان پیسوں سے مسجد یا مدرسہ بنا کر دین کی خدمت کی جائے۔ اگر سسٹم کا حصہ بن کر اس سسٹم کو بدلنا ممکن ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو جہل اور کفار مکہ کی طرف سے کی گئی حکومتی پیش کش نہ ٹھکراتے۔

جواز۔4: عالم دین ہے،پانچ اوقات کی نماز پڑھتا ہے،داڑھی ہے،پگڑی ہے، ہمیں اس لئے عزت و احترام کرنی چاہیئے اس کی،بات ماننی چاہیئے اس کی،اعتماد کرنا چاہیئے اس پہ۔ کم سے کم ہم سے تو اچھا ہے۔

جواب: کیا کسی کا عالم ہونا اس کے تقوٰی دار ہونے کے لئے کافی ہے؟ عالم تو شیطان بھی ہے،اتنا بڑا عالم کہ کسی دور میں فرشتوں کو درس دیا کرتا تھا۔ اسی طرح عالم تو وہ لوگ بھی ہوتے تھے جنہوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کئے تھے۔ علم کا تقوٰی سے تو کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہر عالم کو ٹھیک ماننا ہی اسلام کا تعلیم تھا تو ’’علما ئے سو‘‘ کن لوگوں کو احادیث میں کہا گیا ہے؟ یہ کیوں کہا گیا ہے’’میری امت میں فتنے ختم بھی علما کے ذریعے ہونگے اور فتنے جنم بھی انہی کے ذریعے لیا کریں گے‘‘۔ ٹھیک ہے فضل الرحمان ایک غلط عالم نہ سہی،مگر کم سے کم یہ تسلیم تو کرنا چاہیئے کہ غلط عالم کا ہونا بھی ممکن ہے اور کسی کا علم،داڑھی،پگڑی اور نماز ہر گز اس کے تقوٰی کا ثبوت نہیں ہے۔ اگر کوئی محض اسی کو تقوٰی کا ثبوت بھی قرار دیتا ہے تو وہ گویا ان احادیث کا نکاری ہے جو اس جواب میں میں نے بیان کیئے۔ اور اگر کسی کا علم،داڑھی،پگڑی اور نماز اس کے تقوٰی دارہونے کے لئے کافی ہوتا تو قبائلی علاقوں میں ’’بغیر ختنہ کئے‘‘ علما نہ برآمد ہوتے،جو ہندووں ہوتے تھے اور دہشتگردی کے مشن کے سلسلے میں عالم کے روپ میں قبائلی علاقوں میں گھس جاتے تھے،جنہیں کافی حد تک دینی علم بھی حاصل ہوتا تھا،داڑھی،پگڑی بھی ہوتی تھی اور پانچ اوقات نماز صرف خود ادا نہیں کرتے تھے بلکہ امامت کے فریضے سر انجام دیتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ کسی کے داڑھی،پگڑی اور نماز کا عوام کو کیا فائدہ؟ کیا کسی کو محض اس بنا پہ ووٹ دیا جائےاور اسے منتخب رکھا جائے کہ وہ عالم ہے،داڑھی و پگڑی رکھتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ ان سب سے تو اسے ذاتی فائدہ ہے،جنت مل جائے گی،عوام کو کیا فائدہ ہے اس سے؟ عوام کو فائدہ،عوامی مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر حل کرنے اور اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہ کرنے سے ہوگا۔

جواز۔5: اچھا بھئی یہ جو قرآن و حدیث کے حوالے دے دے کر آپ مولانا صاحب کو منافق،بہتان اور غیبت والا ثابت کر رہے ہیں،تو ان کے خلاف بول کر کیا آپ یا کوئی اور خود غیبت،بہتان اور بد زبانی کا مرتکب نہیں ہورہا ہوتا ہے؟

جواب: باالکل،بے شک میں یا کوئی اور ان کے خلاف بولتے رہنے والا ان سب چیزوں کا مرتکب ہورہا ہوگا،میں کوئی انکاری تو نہیں ہوں،نہ ہی میں نے اپنا یا کسے اور کے پارسا ہونے کا دعوٰی کیا ہے،میرا مقصد صرف یہ آشکارہ کرنا تھا کہ کم سے کم مولاناصاحب بھی پارسا نہیں ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ ایک عام آدمی اگر گناہ کرے تو وہ اللہ کے ہاں اتنا گناہ گار نہیں جتنا وہی گناہ کرنے پر ایک عالم دین ہوگا،کیونکہ عام آدمی کے گناہ کرنے سے صرف وہ آدمی خسارے میں پڑ جاتا ہے،جبکہ ایک عالم دین کے گناہ کرنے سے اس کے مکتبہ فکر سے وابستہ پوری امت کا ایک حصہ گمراہ ہوجاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک عالم دین سے آگے ایک چھوٹی بچی ایک گیلی سی جگہ میں جارہی تھی تو عالم نے کہا بیٹی دھیان سے،کہیں پھسل نہ جاو،بچی نے بڑا دانشمندانہ جواب دیا کہ آپ کا شکریہ لیکن مجھ سے زیادہ اپنی فکر کریں،میرے پھسلنے سے محض ایک بچی پھسل جائے گی،لیکن آپ کے پیچھے پوری امت کھڑی ہے،خدانخواستہ آپ پھسل گئے تو پوری امت پھسل جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ عالم اپنے مذہب کا Representativeیعنی ترجمان ہوتا ہے،عام آدمی کے گناہ کا کوئی زیادہ نوٹس نہیں لیتا، اور اگر نوٹس لے بھی لے تو زیادہ سے زیادہ وہ ایک آدمی ہی بدنام ہوجاتا ہے بس،لیکن عالم کے گناہ پر سب کا نظر ہوتا ہے،تو مذہب کے ترجمان یا Representative ہونےکی حیثیت سے عالم کا گناہ کرنے سے صرف ایک آدمی نہیں بلکہ مذہب بدنام ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ عالم کا گناہ اس لئے بھی عام انسان سے زیادہ ہوتا ہے کہ عالم تو با خبر ہوتا ہے،گناہ کے عذاب،خدا کے قہر وغیرہ سے بہت اچھی طرح عام آدمی کی نسبت۔ اور ایک اور بات یہ کہ عالم کی عزت تب تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ خود اپنے عالم پن کی قدر سے آشنا ہو اور خود کو عالم جیسا ہی رہنے دیں،نہ کہ عام لوگوں کی سطح پر آکر عام لوگوں کو عام انسان بن کر جواب دیا کرے۔ اور عام انسان کے گالیوں یا تلخ باتوں کے بدلے میں اس کی طرف سے بھی گالیاں اور تلخ باتیں ملیں۔ ایسا Behaviorتاریخ میں کسی بھی صحیح معنوں میں عالم کا نہیں رہا ہے۔ تلخ بات کا تلخی سے جواب دینے والا اس رسول(ص) کا وارث ہونا تو دور کی بات،ایسے انسان کا ان کے ادنیٰ امتی ہونے میں بھی شک کیا جاسکتا ہے،جس رسول (ص) کو طائف کی وادی میں لہولہان کیا گیا تھا،اور بدلے میں وہ ان لوگوں کو تلخ بات تو کیا،الٹا دعائیں دے رہے تھے۔

جواز۔6: مولانا صاحب مفتی محمود صاحب جیسے عظیم بززگ اور تقوٰی دار انسان کے فرزند ہیں،ایسے انسان کا فرزند کیسے خراب انسان ہوسکتا ہے؟

جواب: مفتی محمود صاحب کے کردار پر بے شک ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں،کوئی شک نہیں کہ وہ ولی اللہ تھے،لیکن مولانا فضل الحمان کو بھی پارسا، محض ان (مفتی محمود صاحب)کے پارسا کردار کی وجہ سے سمجھنے کا تو وہی مطلب ہوا کہ’’ کیا ہوا جو میں کچھ بھی نہیں ہوں،میرا باپ تو بادشاہ تھا ناں۔‘‘مطلب اگر کسی کا باپ بادشاہ گزرا ہو،اور خود وہ دو ٹکے کا آدمی نہ ہو،تو کیا محض اس وجہ سے اس کو باد شاہوں جیسا پروٹوکول دیا جائے کہ اس کا باپ بادشاہ تھا؟ یہ تو بے وقوفی ہی ہوگی۔ اور دوسری بات یہ کہ حضرت نوح(ع) پیغمبر تھے اور ان کا بیٹا کافر تھا۔ کسی کے باپ کا متقی ہونے سے اولاد کا بھی متقی ہونا کوئی خدائی قانون نہیں ہے۔ اس طرح کے بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

جواز۔7: جے یو آئی والے ایک دوست کا کہنا ہے مولانا فضل الرحمان صاحب کے ولی اللہ ہونے کی یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ دور حاضر کے تقریباً جتنی بھی بزرگ ہستیاں ہیں وہ مولانا صاحب کو اپنا رہبر مانتے ہیں۔ میں نے عرض کیا ثبوت تو اس نے فضل الرحمان صاحب کی چند واقعی انتہائی نیک ہستیوں کے ساتھ اتاری گئ تصاویر دکھائے جس میں مولانا صاحب ان ہستیوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے اور گلے ملتے دکھائی دیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بقول ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے کہ مولانا علم میں میرا شاگرد ہے لیکن سیاست میں میرا امام ہے.۔
جواب: نیک لوگ تو ہر انسان کی بلا تفریق عزت کرتے ہیں۔ احترام سے پیش آ تے ہیں۔یہ سب تو وہ ہستیاں خوش اخلاقی کی وجہ سے کر رہی ہوتی ہیں نہ کہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اس شخص کو اپنا مرشد سمجھا جو ان سے ملا۔ اب مولانا طارق جمیل صاحب کو ہی دیکھ لیں۔وہ تو زانی اور شرابیوں کے ساتھ بھی اسی محبت سے پیش آتے ہیں جس محبت سے آپ فضل الرحمان سے پیش آئنگے۔ فضل الرحمان صاحب کے عاشقوں کو اب کون سمجھائے کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔وہ واقعہ تو سب کو یاد ہی ہوگا کہ امام ابو حنیفہ رح اپنے درس کو بند کرکے اپنی شاگردوں کے بیچ میں سے ایک کتے پالنے والے غیر مسلم عیسائی انسان کے لئے اٹھ کر احتراما ََمحض اس لیے کھڑے ہوئے تھے کہ اس نے اسے یہ ایک بات سکھائی تھی کہ کتے کی بلوغت کی کیا نشانی ہوتی ہے۔ لیکن اب کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ امام ابو حنیفہ رح اسے اپنا اور پوری امت کا رہبر سمجھ رہے تھے؟۔ ظاہر ہے نہیں ناں۔ یہی تو کہتا ہوں یہ نیک لوگ تو تھوڑی سی بات پہ ہر ایک کی عزت کرتے ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ وہ ہر اس بندے کو اپنا اور امت کا خیر خواہ یا رہبر سمجھتے ہیں جن کی وہ عزت کریں۔ اگر امام ابو حنیفہ رح محض کتے کی بلوغت کی نشانی سکھانے پر ایک کتے پالنے والے غیر مسلم کا احترام کر سکتے ہیں اور اسے اپنا استاد کہہ سکتے ہیں تو شیر علی شاہ صاحب کا مولانا فضل الرحمان کو استاد کہنا کونسی بڑی بات ہے۔

جواز۔8:مولانا کیا ہے ؟ ان کا کردار کیا ہے؟ اور کیا کچھ کر رہا ہے اس کو جانچنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہے۔اب ہیرے کی پھرک لوہار کرسکتا ہے بھلا؟ سونے کی بھاو صراف ہی جانے۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ انسان جس کی شخصیت لوگ سمجھ نہیں سکتے،وہی بندہ ہوتا ہے جس کی شخصیت کردار افعال و عقائد متعین نہ ہو،اور یہی منافق کی تعریف ہے۔ دوسری بات یہ کہ عوام کو کسی ایسے ما فوق الفطرت لیڈر کی ضرورت نہیں ہے کہ جس کی شخصیت اس حد تک پر اسرار ہو کہ اس کو سمجھنے کے لئے پہلے آئن سٹائن بننا ہوتا ہے۔اب آئن سٹائن تو ہر کوئی ہو نہیں سکتا۔ عوام کو تو سادہ رہنما چاہئے کہ جس کی چال چلن اٹھک بیٹھک خالص عوامی ہو۔ عام فہم ہو ۔
جواز۔9:اگر آپ کو مولانا صاحب پسند نہیں توبتائیں کس سیاستدان کے آپ فین ہیں،کہ میں آپ کو اس کے خامیوں کا پورا ایک لسٹ مہیا کر کے دے دوں؟ چلو مولانا ٹھیک نہ سہی پھر تم ہی بتاو تو کون فرشتہ ہے؟

جواب: ایسا کہنے کامطلب یہ اعتراف کرنا ہوتا ہے کہ ’’اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں‘‘،مولانا صاحب سمیت۔ اور یہ تو اپنا بہت پہلے سے عقیدہ ہے اور دوسروں کے لئے بھی دعا ہے کہ اللہ انہیں اس حقیقت سے آشنا کردے۔ پاکستانی سیاست کا نظام امریکی اور یہودی چلا رہے ہیں،سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی پارسا اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے حقیقی معنوں میں فکر مند لیڈر زندہ رہ سکے۔ ایسا کچھ جب کسی لیڈر میں محسوس کیا جاتا ہے،تو فوراَ اسے قتل کر کے رستے سے ہٹایا جاتا ہے۔ یہ سارے یا تو ان کے ایجنٹ ہیں یا پھر لٹیرے،چور اور ڈاکو ہیں،جو اگران کے لئے کام نہیں کر رہے،تو کم سے کم ملک و قوم کی بہتری میں دلچسپی لے کر ان کے لئے مسائل بھی نہیں بنا رہے۔ میں ذاتی طور پرایک تو اسی وجہ سے کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھتااور دوسرا اس وجہ سے کہ یہ مغربی طرز کی جمہوریت ،سیاست اور ووٹنگ سسٹم میرے دین’’اسلام‘‘ کے خلاف ہے،اسلام میں تو’’خلافت‘‘ کا سسٹم ہوتاہے،مگر سیاسی پارٹی سے تعلق نہ رکھنے کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ کسی کے اچھے اقدام کو میں سراہوں نہیں یا کسی کے برے اقدام کی مذمت نہ کروں۔ غلط کو ٖغلط اور صحیح کو صحیح کہنا چاہیئے۔ اگر کوئی سیاستدان کوئی اچھا کام کرے تو اسے صحیح کہنا چاہیئے۔ اور اسے صحیح کہنے کی توفیق بھی الحمد اللہ ہم جیسے غیر سیاسی مزاج والوں کو حاصل ہے۔ سیا سی مزاج والے لوگ محض اپنی پارٹی کے اقدامات کو صحیح کہیں گے،گو کہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اور دوسرے پارٹی کا اچھا اقدام بھی انہیں برا لگے گا، جب کہ ہماری الحمد اللہ آنکھیں کھلی ہیں،ہمیں سب کی اچھائیاں اور برائیاں نظر آتی ہیں۔

جواز۔10: مولانا صاحب عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے اور دین کے حقیقی نفاذ کے لئے بت سارا کام کرچکےہوتے،لیکن وفاق کی طرف سے فنڈنگ،تعاون اور اجازت کا فقدان ہے۔
جواب: یہ مولانا صاحب کی حامیوں کی طرف سے ہی پیش کیا گیا کوئی منفرد جواز نہیں ہے،یہ جواز کامیاب ہونے پر وعدہ خلافیوں کے سامنے آنے پر تقریباََ ہر سیاستدان اور اس کے حامی بے چارے عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ اور یہ وہی جواز ہے جو ایم ایم اے اسلام کے نام پہ ووٹ لے کر جب صوبے کی حکومت حاصل کر بیٹھی تو یہاں اسلام کی نفاذ اور خاطر خواہ خدمت میں ناکامی کے سلسلے میں پیش کرتی تھی۔ ایم ایم اے کی نسبت مساجد کو بھاری فنڈز دے کر،جنازگاہیں اور عید گاہیں تعمیر کر کے، مساجد کے اماموں کی نوکری کو سرکاری سکیلز میں شامل کر کے، اسلام کی خدمت کسی حد تک اے این پی نے کرلی،جو کہ اُس وقت،یعنی دورانِ حکومت جے یو آئی کے ہاں کانگریسی اور سیکولر خیال والی پارٹی سمجھی جاتی تھی،البتہ آج کل مفادات کی خاطر یہ پارٹی جے یو آئی کی پشتو الفاظ کے مطابق’’دین پہ دُینا رور‘‘ بن چکی ہے،یعنی ان دونوں میں اتحاد ہوچکا ہے۔ بہرحال یہ جواز نمبر ۸ اگر درست بھی ہو تو پھر بھی ہم عوام کو اس سے کیا لینا دینا،ہم نے تو آپ کو منتخب کیا اب یہ آپ کا دردِ سر ہے کہ کس طرح وفاق سے اپنے مطالبات منوائے جائیں،ہمارا تو نہیں۔ہم نے تو ووٹ اسی لیئے دیا ہوتا ہے کہ آپ سیاستدان لوگ ہمیں ہمارے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرادیتے ہیں،وعدے کرلیتے ہیں ہمارے ساتھ،اب اگر آپ اپنے وہ وعدے واقعی اپنی کسی مجبوری کے تحت بھی پورا نہیں کر پا رہے،تب بھی ہمارے لئے تو آپ مجرم ہی ہوئے۔ مجرم ہونے سے آپ بچنا چاہتے ہیں تو علیحٰدہ ہوجائیں حکومت سے۔ چھوڑیں کرسی اور عہدہ،جس کے آپ مراعات اور تنخواہیں لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ مراعات اور تنخواہیں آپ کو اسی لئے ہی ملتے ہیں کہ آپ عوام کے خواہشات کے اور اپنے منتخب ہونے سے پہلے کئے گئے وعدوں کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں۔ اگر اس سلسلے میں آپ کو کوئی بھی رکاوٹ پیش آ رہی ہو، قطع نظر اس سے کہ رکاوٹ ہے ہی نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں(جھوٹ بولنا تو الگ ایک دھوکہ ہوا)،یا واقعی رکاوٹ موجود ہے،تو عوام کی طرف سے ملا ہوا ایک ایک ووٹ،یہ کرسی،یہ عہدہ،اس کے مراعات اور تنخواہ مکمل حرام ہے۔ اگر آپ منتخب ہونے کے باوجود وفاق کا محتاج ہیں،تو آپ کا منتخب ہونا اور نہ ہونا برابر ہوا۔ اسی لیئے تو کہتا ہوں کہ ایسے نظام کا حصہ بننے سے پھر بہتر ہے کہ ایسے نظام سے یا تو کھلے عام بغاوت کی جائے اور یا پھر کم سے کم احتجاج کے طور پر بایئکاٹ کیا جائے ایسے نظام سے۔ بایئکاٹ کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں،یا تو الیکشن کا حصہ ہی نہ بننا،یا پھر متخب ہونے کے بعد عوام کی منشا کے مطابق کام کرنے میں اپنے آپ کو بے بس پا کر استعفٰی دینا۔

جواز۔11: مانا کہ مغربی طرز کی یہ سیاست،جمہوریت اور ووٹنگ سسٹم اینٹی اسلامک ہیں،لیکن اس نظام میں حصہ لینا ہماری مجبوری ہے،ہر طرف یہی نظام ہے،ہم آخر کیا کریں؟

جواب: خراب نظام کو مجبوری کہہ کر اختیار کرنا کوئی اسلامی درس نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مسلمانوں کو کفار مکہ سے بغاوت کرکے وہاں سے ہجرت کرنے اور پھر جہاد کرنے تک کے احکامات نہ ملتے،بلکہ یہ کہا گیا ہوتا کہ بس بنو اس کفری نظام کا حصہ،مجبوری ہے۔ جس طرح میں نے اوپر ایک نکتے کی وضاحت میں عرض کیا کہ خراب نظام کو بدلنے کے لئے نظام کا حصہ نہیں بننا چاہیے،ایسا کر کے آپ نظام کو اختیار کئے رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں،اس سے نظام مضبوط ہوتا ہے،نظام کو کمزور کرنے کے دو ہی رستے ہیں،: ۱)نظام کا بایئکاٹ کیا جائے،ایسا کرنے سے نظام کے ممبرز کی تعداد میں کمی ہوجائے گی،اور جوں جوں یہ کمی بڑھتی جائے گی،نظام خود بخود دم توڑتا جائے گا،اگر کوئی یہ کہے کہ میرے ذاتی،انفرادی بائیکاٹ سےںظام پہ کیا فرق پڑسکتا ہے بھلا؟ ایک ممبر کے نکلنے سے نظام ختم تو نہیں ہوتا،تو بے شک نظام ختم نہیں ہوتا مگر آپ کے نکل جانے سے آپ کو ذاتی طور پہ یہ فائدہ تو حاصل ہوجائےگا کہ نظام کے ممبرز جن گناہوں کے مرتکب ہورہے ہیں،ان میں آپ کا حصہ تو نہیں ہوگا ناں۔ ۲)قوتِ بازو سے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے،اس میں قتل و غارت وغیرہ کا خدشہ ہوتاہے،لیکن انقلابات ہمیشہ اسی رستے سے آئے ہیں۔ یہاں پر بھی میں ایک حدیث کا ذکر کرتا جاوں’’تم میں سے کوئی منکر(برائی) کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے۔ اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے۔ اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے۔ اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے‘‘۔ (مسلم۔ عن ابی سعید الخدریؓ)
مانا کہ ہم میں نظام کو بدلنے کی طاقت یا وہ بہادری نہیں ہوگی لیکن کم سے کم دل میں اسے برا تو سمجھ سکتے ہیں ناں۔ اور دل میں برا سمجھنے کا سب سے بہترین اظہار نظام کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ اور عوام کی حیثیت سے ہم نظام کا بائیکاٹ اس طرح سے کر سکتے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے حق میں نہ کوئی کام کریں اور نہ ووٹ دیا کریں،ان ووٹوں کے ذریعے تبدیلیاں نہیں آتیں،الٹا نہ صرف اس ہر گناہ میں آپ حصہ دار بن جاتے ہیں جو آپ کے ووٹس سے منتخب چور اور لٹیرے سے سرزد ہوتے ہیں،بلکہ ایک اینٹی اسلامک سسٹم کوپروموٹ کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں، تبدیلیاں انہی دو نکات میں سے کسی کو اختیار کرنے سے آتی ہیں۔ یا نظام کا بائیکاٹ کرنا جو کہ ایک نازک اور شریف انسان کے لئے زیادہ موزوں آپشن ہے،یا دوسرا آپشن یہ کہ کھلم کھلا بغاوت کا علم بلند کر قوت بازو کو استعمال کر کے نظام سے ٹکر لینا۔

2 comments: