سائنس کا ہمیشہ سے اصول رہا ہے کہ یہ ’’کچھ نہیں ہے‘‘ پر یقین نہیں رکھتا۔ سائنس میں دو طرح کے صورتحال کی گنجائش ہے: ۱) یقین: کسی بات کو تجربے سے گزار کر جب درست ثابت کیا جاتا ہے تو اس پر یقین کر لیا جاتا ہے۔ ۲) شک: جس بات کو فی الحال تجربے سے گزارنا نا ممکن ہوتو اس کو شک کی Categoryمیں رکھا جاتا ہے۔
بجائے اس کے کہ ایسا ’’کچھ نہیں ہے‘‘ کہہ کر بات کو پسِ
پشت ڈال کر اس کا ChapterہیCloseکردیا جائے،اس کو مسلسل ریسرچز سے گزارنے کا سلسہ شروع کردیا جاتا ہے۔ جن معاملات کے حوالے سے مشاہدات اور تجربات تک رسائی نہ ہو،سائنس ان معاملات کو یکسر رد نہیں کرتا۔ یکسر تو سائنس کسی بات کو صرف تب رد کرتا ہے جب اس کے حوالے سے مناسب
مشاہدات ااور تجربات عمل میں لائے جا چکے ہو ں اور نتیجے میں بات غلط ثابت ہوتی ہو۔ مذاہب کی تعلیمات بھی کچھ ایسی ہی باتوں کے حوالے سے ہیں جن تک انسان کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوالے سے مناسب مشاہدات یا تجربات کا عمل میں لانا نا ممکن ہے۔ مذاہب کے وہ تعلیمات جن پر نام نہاد عقل پرست اکثر شک کرتے ہیں، عموماََ مندرجہ ذیل باتوں کے حوالے سے ہوتے ہیںـ: ۱) معاملاتِ بعد ازمرگ۔ ۲ ) تخلیقِ حیات(یعنی جاندار اشیاء)اورتخلیقِ باقی ماندہ کائنات۔ ۳) زمین سے باہر کائنات کا حصہ۔ یہ تمام ایسے معاملات ہیں کہ ان کے حوالے سے مناسب مشاہدات یا تجربات کا عمل میں لانا نا ممکن ہے۔ کیونکہ مشاہدہ یا تجربہ تو تب ہوجائے جب ایک معاملے تک انسان کی مکمل رسائی ہو۔ اب کوئی مرنے کے بعد واپس تو آ نہیں سکتا کہ وہ اپنے بعد از مرگ تجربات سے ہمیں آگاہ کرسکے۔ اسی طرح تخلیقِ کائنات کے وقت بھی وہاں کوئی موجود نہیں تھا جو عینی شاہد بن کر ہمیں معلومات فراہم کرسکے۔ اسی طرح زمین کے باہر ہم سے لاکھوں اور کروڑوں (نوری سال)Light Years کے فاصلے پر موجود یااپنے اندرہم جانداروں اور ہمارے خلائی آلات کے لئے ناسازگار حالات لیئے ہوئے،ستاروں اور ان کے سیاروں تک پہنچنا بھی ہمیشہ کے لئے ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ پس ایسے معاملات کے بارے میں کوئی جو بھی کچھ کہے تو اس کی بات پر اگر یقین نہیں کیا جاسکتا تو رد بھی نہیں کی جا سکتی۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سائنس کے ایک پروفیسر اپنے ایک طالبِ علم کے ہمراہ جا رہے تھے کہ رستے میں رک کر انہوں نے ایک پتھر اٹھا یااور طا لب ِ علم سے کچھ یوں مخاطب ہوئے،’’مائی ڈئیر ! اس پوری کائنات میں اس والے پتھر کے جو میرے ہاتھ میں ہے،کیا Functionsہیں؟ یہ سن کر طالبِ علم مسکرایا اور بولا،’’سر! اس اتنی بڑی کائنات کے حساب سے ،اس نہایت ہی معمولی اور نظر انداز کرنے کے قابل چیز کے بھلا کیا Functionsہوسکتے ہیں ؟ اس کے کوئی Functionsنہیں ہیں۔‘‘ یہ سن کر پروفیسر صاحب نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے،’’ غلط۔ ایسا نہیں کہتے کہ اس کے Functionsہیں ہی نہیں،بلکہ یوں کہا کریں کہ ہمیں علم نہیں ہے اس کے Functionsکا۔‘‘ یہ ہوتی ہے سائنسی سوچ۔’’کچھ نہیں ہے‘‘ کا فلسفہ جاہلانہ اور غیر سائنسی ہے۔ اب (خلائی مخلوق) Alienکے نظرئیے کو ہی لے لیجیے۔ یہ محض کچھ لوگوں کا خیال بنا جب انہیں کائنات کی وسعت کا اندازا ہوا کہ بھئی کائنات جب اتنی ہی بڑی ہے تو عین ممکن ہے کہ اس میں بہت دور ہی سہی مگر ایسے سیارے اور بھی ہوں جہاں کوئی مخلوق آباد ہو۔ اب سائنسدان اگر چہ آج تک خلائی مخلوق کے وجود کو ثابت نہیں کر پائے،مگر سائنس ان کے وجود سے انکار بھی اس وجہ سے نہیں کر سکتا کہ ہم خلاء میں لمبے لمبے اور دور دراز کے سفر اپنی مر ضی کے وقت میں طے نہیں کر سکتے ۔ پس سائنس کے ہاں یہ بات ابھی شک کی Categoryمیں پڑی ہوئی ہے۔ خلائی مخلوق کے وجود پہ یقین رکھنے والے لوگوں کے پاس اگر خلائی مخلوق کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو سائنس کے پاس بھی ان کے موجود نہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس بات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ تو تب ہی ممکن ہو سکے گاجب ہمیں ایسی ٹیکنالوجی ہاتھ آئے کہ ہم خلاء میں نہ صرف لاکھوں اور کروڑوں نوری سال کے فاصلوں کو اپنی مرضی کے وقت میں طے کرنے کے قابل ہوجائیں بلکہ ستاروں اور سیاروں کا ہماری زندگی اور ہماری خلائی آلات یعنی خلائی جہازوں،روبوٹس اور سیٹیلائٹس وغیرہ کے لئے ضرر رساں ماحول کا مقابلہ کرنے کے بھی قابل ہوجائیں اور آ س پاس کے تمام Solar Systemsکی خوب چھان بین کریں۔ ایسی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔باالکل اسی طرح مذاہب کی تعلیمات کو بھی اگر سائنس تسلیم نہیں کر سکتا، تو رد بھی نہیں کر سکتا۔ جس طرح کسی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے اس کا مشاہدات و تجربات سے گزارنا ضروری ہوتا ہے باالکل اسی طرح کسی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے بھی اس کو مشاہدات و تجربات سے گزارنا ضروری ہوتا ہے،اور بقولِ ملحدین مذہبی عقائد مشاہدات و تجربات سے گزارنے کی چیزیں ہیں ہی نہیں،تو پھر تو اگر ان کو کوئی درست نہیں کہتا تو کم سے کم غلط بھی نہیں کہہ سکتا۔ دوسری بات یہ کہ جس طرح میں نے اپنے پچھلے کا لم میں ذکر کیا تھا کہ انسان کامل نہیں ہے۔اس کے حواس ،ذہن اور تمام صلاحیتیں ایک مقررہ حد کے اندر کام کرتے ہیں۔ انسان کا مل ہوتا تو اسے مشاہدات ،تجربات،اور نت نئے آلات ایجاد کر کے ان سے مدد لینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ ہر چیز کا ،بغیر مشاہدہ،بغیر تجربہ اوربغیر آلات ایجاد کرکے ان سے مدد لئے،اسے علم ہوتا۔ ایک دور تھا جب انسان کے مطالعے میں Microorganismsنہیں آئے تھے،اس دور میں یہی نا م نہاد عقل پرست لوگ اپنے ارد گرد کے بڑے بڑے جانداروں کو دیکھ کر ہی کائنات کے کُل جاندار سمجھتے تھے۔ اسی طرح ایک دور تھا جب انسان زمین سے باہر نہیں نکلا تھاتو اس کو پوری کائنات یہ زمین ہی لگ رہی تھی۔ جب زمین سے تھوڑا سر باہر نکالا تو اسے نظامِ شمسی نظر آیا،پھر اس کو ساری کائنات اپنا یہ نظامِ شمسی ہی لگنے لگا۔ پھر جب خلاء میں مکمل داخل ہو کر کچھ سفر کیاتو پتا چلا کہ صرف زمین ہی نہیں بلکہ ہمارا یہ پورا نظامِ شمسی کائنات کی وسعتوں میں ایک چھوٹے نقطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔مجھے دکھائی نہیں دے رہا،میں سن نہیں رہا،میں محسوس نہیں کر پا رہا،میری عقل اس کو نہیں مانتی،لہٰذا اس وجہ سے ایسا’’کچھ نہیں ہے‘‘،ایسی سوچ رکھنا جا ہلانہ ڈھیٹ پن کا نتیجہ ہوسکتا ہے،علم کا ہر گز نہیں۔ پس ضروری نہیں کہ جو چیزیں انسان کے مشاہدات ،فہم و ادراک اور عقل کے دائرے میں آتی ہوں،تو وہی حقیقت ہے،وہی ہوجود ہے،وہی کائنات ہے۔ اس کے علاوہ ارد گرد اور کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی چیز کے موجودنہ ہونے کے لئے انسان کا اس کو محسوس نہ کرنا اور اس کے عقل کا اس کو نہ ماننا ہر گز کافی نہیں ہے۔ پس ایسے میں بالکل خدا کا،فرشتوں کا ،جنات کا،جنت کا،دوزخ کا،اور سات آسمانوں کے وجود کا یقین کرنا کوئی باعثِ تعجب بات نہیں ہے۔ اگر کوئی ان کا یقین نہیں کر سکتا تو اسے انکار کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اس ضعیف الحواس اور ضعیف العقل انسان کا محسوس کرنا یا اس کی عقل کاماننا،ہر گزکسی چیز کے وجود کو پرکھنے کا پیمانہ نہیں ہوسکتا۔ مینڈک جس تالاب میں رہتا ہے،اس کو صرف وہی کائنات لگتی ہے۔ انسان کا عقل و شعور رکھنے کے باوجود مینڈک کے نقشِ قدم پر جانا نہایت افسوس کی بات ہے۔
بجائے اس کے کہ ایسا ’’کچھ نہیں ہے‘‘ کہہ کر بات کو پسِ
پشت ڈال کر اس کا ChapterہیCloseکردیا جائے،اس کو مسلسل ریسرچز سے گزارنے کا سلسہ شروع کردیا جاتا ہے۔ جن معاملات کے حوالے سے مشاہدات اور تجربات تک رسائی نہ ہو،سائنس ان معاملات کو یکسر رد نہیں کرتا۔ یکسر تو سائنس کسی بات کو صرف تب رد کرتا ہے جب اس کے حوالے سے مناسب
مشاہدات ااور تجربات عمل میں لائے جا چکے ہو ں اور نتیجے میں بات غلط ثابت ہوتی ہو۔ مذاہب کی تعلیمات بھی کچھ ایسی ہی باتوں کے حوالے سے ہیں جن تک انسان کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوالے سے مناسب مشاہدات یا تجربات کا عمل میں لانا نا ممکن ہے۔ مذاہب کے وہ تعلیمات جن پر نام نہاد عقل پرست اکثر شک کرتے ہیں، عموماََ مندرجہ ذیل باتوں کے حوالے سے ہوتے ہیںـ: ۱) معاملاتِ بعد ازمرگ۔ ۲ ) تخلیقِ حیات(یعنی جاندار اشیاء)اورتخلیقِ باقی ماندہ کائنات۔ ۳) زمین سے باہر کائنات کا حصہ۔ یہ تمام ایسے معاملات ہیں کہ ان کے حوالے سے مناسب مشاہدات یا تجربات کا عمل میں لانا نا ممکن ہے۔ کیونکہ مشاہدہ یا تجربہ تو تب ہوجائے جب ایک معاملے تک انسان کی مکمل رسائی ہو۔ اب کوئی مرنے کے بعد واپس تو آ نہیں سکتا کہ وہ اپنے بعد از مرگ تجربات سے ہمیں آگاہ کرسکے۔ اسی طرح تخلیقِ کائنات کے وقت بھی وہاں کوئی موجود نہیں تھا جو عینی شاہد بن کر ہمیں معلومات فراہم کرسکے۔ اسی طرح زمین کے باہر ہم سے لاکھوں اور کروڑوں (نوری سال)Light Years کے فاصلے پر موجود یااپنے اندرہم جانداروں اور ہمارے خلائی آلات کے لئے ناسازگار حالات لیئے ہوئے،ستاروں اور ان کے سیاروں تک پہنچنا بھی ہمیشہ کے لئے ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ پس ایسے معاملات کے بارے میں کوئی جو بھی کچھ کہے تو اس کی بات پر اگر یقین نہیں کیا جاسکتا تو رد بھی نہیں کی جا سکتی۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سائنس کے ایک پروفیسر اپنے ایک طالبِ علم کے ہمراہ جا رہے تھے کہ رستے میں رک کر انہوں نے ایک پتھر اٹھا یااور طا لب ِ علم سے کچھ یوں مخاطب ہوئے،’’مائی ڈئیر ! اس پوری کائنات میں اس والے پتھر کے جو میرے ہاتھ میں ہے،کیا Functionsہیں؟ یہ سن کر طالبِ علم مسکرایا اور بولا،’’سر! اس اتنی بڑی کائنات کے حساب سے ،اس نہایت ہی معمولی اور نظر انداز کرنے کے قابل چیز کے بھلا کیا Functionsہوسکتے ہیں ؟ اس کے کوئی Functionsنہیں ہیں۔‘‘ یہ سن کر پروفیسر صاحب نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے،’’ غلط۔ ایسا نہیں کہتے کہ اس کے Functionsہیں ہی نہیں،بلکہ یوں کہا کریں کہ ہمیں علم نہیں ہے اس کے Functionsکا۔‘‘ یہ ہوتی ہے سائنسی سوچ۔’’کچھ نہیں ہے‘‘ کا فلسفہ جاہلانہ اور غیر سائنسی ہے۔ اب (خلائی مخلوق) Alienکے نظرئیے کو ہی لے لیجیے۔ یہ محض کچھ لوگوں کا خیال بنا جب انہیں کائنات کی وسعت کا اندازا ہوا کہ بھئی کائنات جب اتنی ہی بڑی ہے تو عین ممکن ہے کہ اس میں بہت دور ہی سہی مگر ایسے سیارے اور بھی ہوں جہاں کوئی مخلوق آباد ہو۔ اب سائنسدان اگر چہ آج تک خلائی مخلوق کے وجود کو ثابت نہیں کر پائے،مگر سائنس ان کے وجود سے انکار بھی اس وجہ سے نہیں کر سکتا کہ ہم خلاء میں لمبے لمبے اور دور دراز کے سفر اپنی مر ضی کے وقت میں طے نہیں کر سکتے ۔ پس سائنس کے ہاں یہ بات ابھی شک کی Categoryمیں پڑی ہوئی ہے۔ خلائی مخلوق کے وجود پہ یقین رکھنے والے لوگوں کے پاس اگر خلائی مخلوق کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو سائنس کے پاس بھی ان کے موجود نہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس بات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ تو تب ہی ممکن ہو سکے گاجب ہمیں ایسی ٹیکنالوجی ہاتھ آئے کہ ہم خلاء میں نہ صرف لاکھوں اور کروڑوں نوری سال کے فاصلوں کو اپنی مرضی کے وقت میں طے کرنے کے قابل ہوجائیں بلکہ ستاروں اور سیاروں کا ہماری زندگی اور ہماری خلائی آلات یعنی خلائی جہازوں،روبوٹس اور سیٹیلائٹس وغیرہ کے لئے ضرر رساں ماحول کا مقابلہ کرنے کے بھی قابل ہوجائیں اور آ س پاس کے تمام Solar Systemsکی خوب چھان بین کریں۔ ایسی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔باالکل اسی طرح مذاہب کی تعلیمات کو بھی اگر سائنس تسلیم نہیں کر سکتا، تو رد بھی نہیں کر سکتا۔ جس طرح کسی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے اس کا مشاہدات و تجربات سے گزارنا ضروری ہوتا ہے باالکل اسی طرح کسی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے بھی اس کو مشاہدات و تجربات سے گزارنا ضروری ہوتا ہے،اور بقولِ ملحدین مذہبی عقائد مشاہدات و تجربات سے گزارنے کی چیزیں ہیں ہی نہیں،تو پھر تو اگر ان کو کوئی درست نہیں کہتا تو کم سے کم غلط بھی نہیں کہہ سکتا۔ دوسری بات یہ کہ جس طرح میں نے اپنے پچھلے کا لم میں ذکر کیا تھا کہ انسان کامل نہیں ہے۔اس کے حواس ،ذہن اور تمام صلاحیتیں ایک مقررہ حد کے اندر کام کرتے ہیں۔ انسان کا مل ہوتا تو اسے مشاہدات ،تجربات،اور نت نئے آلات ایجاد کر کے ان سے مدد لینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ ہر چیز کا ،بغیر مشاہدہ،بغیر تجربہ اوربغیر آلات ایجاد کرکے ان سے مدد لئے،اسے علم ہوتا۔ ایک دور تھا جب انسان کے مطالعے میں Microorganismsنہیں آئے تھے،اس دور میں یہی نا م نہاد عقل پرست لوگ اپنے ارد گرد کے بڑے بڑے جانداروں کو دیکھ کر ہی کائنات کے کُل جاندار سمجھتے تھے۔ اسی طرح ایک دور تھا جب انسان زمین سے باہر نہیں نکلا تھاتو اس کو پوری کائنات یہ زمین ہی لگ رہی تھی۔ جب زمین سے تھوڑا سر باہر نکالا تو اسے نظامِ شمسی نظر آیا،پھر اس کو ساری کائنات اپنا یہ نظامِ شمسی ہی لگنے لگا۔ پھر جب خلاء میں مکمل داخل ہو کر کچھ سفر کیاتو پتا چلا کہ صرف زمین ہی نہیں بلکہ ہمارا یہ پورا نظامِ شمسی کائنات کی وسعتوں میں ایک چھوٹے نقطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔مجھے دکھائی نہیں دے رہا،میں سن نہیں رہا،میں محسوس نہیں کر پا رہا،میری عقل اس کو نہیں مانتی،لہٰذا اس وجہ سے ایسا’’کچھ نہیں ہے‘‘،ایسی سوچ رکھنا جا ہلانہ ڈھیٹ پن کا نتیجہ ہوسکتا ہے،علم کا ہر گز نہیں۔ پس ضروری نہیں کہ جو چیزیں انسان کے مشاہدات ،فہم و ادراک اور عقل کے دائرے میں آتی ہوں،تو وہی حقیقت ہے،وہی ہوجود ہے،وہی کائنات ہے۔ اس کے علاوہ ارد گرد اور کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی چیز کے موجودنہ ہونے کے لئے انسان کا اس کو محسوس نہ کرنا اور اس کے عقل کا اس کو نہ ماننا ہر گز کافی نہیں ہے۔ پس ایسے میں بالکل خدا کا،فرشتوں کا ،جنات کا،جنت کا،دوزخ کا،اور سات آسمانوں کے وجود کا یقین کرنا کوئی باعثِ تعجب بات نہیں ہے۔ اگر کوئی ان کا یقین نہیں کر سکتا تو اسے انکار کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اس ضعیف الحواس اور ضعیف العقل انسان کا محسوس کرنا یا اس کی عقل کاماننا،ہر گزکسی چیز کے وجود کو پرکھنے کا پیمانہ نہیں ہوسکتا۔ مینڈک جس تالاب میں رہتا ہے،اس کو صرف وہی کائنات لگتی ہے۔ انسان کا عقل و شعور رکھنے کے باوجود مینڈک کے نقشِ قدم پر جانا نہایت افسوس کی بات ہے۔
No comments:
Post a Comment