’’پاکستان میں صحافت‘ |
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جوظلم اور برائیوں کو آشکارہ کرنے اور ان سے متعلقہ با اختیار اداروں کو آگاہ کرکے ان کی بیخ کنی کی طرف توجہ دلانے کا نام ہے۔ صحافی کے بارے میں عام طور پر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ صحافی کا معاشرے اور اداروں پر ایک رعب اور دبدبہ چھایا رہتا ہے،ہر جگہ اس کی عزت کی جاتی
ہے،بات سنی اور مانی جاتی ہے،اور اسی لالچ کو استعمال کرتے ہوئے نیوز ایجنسیز کے مکار مالکان بھی کافی حد تک نئے بھرتی ہونے والے صحافیوں کو بغیر تنخواہ کے کام کرنے پہ آمادہ کرکے ان کا استہسال کر کے کماتے ہیں۔ بے شک ایک طرف ایسے صحافی بھی موجود ہیں ،جن کا معاشرے میں ایک رعب اور دبدبہ ہوتا ہے ،لیکن
صحافیوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے کہ جن کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوجائے تو ان کا کوئی نہیں پوچھتا ۔ شہر شہر ایک مخصوص ٹولہ نے قبضہ گروپ کی شکل اختیار کر کے ایک پریس کلب بنایا ہوتا ہے جس میں شمولیت کا موقع
یہ مخصوص ٹولہ کسی دوسرے صحافی کوہرگز نہیں دیتا ،اور مندرجہ بالارعب اور دبدبے سمیت صحافیوں کے لئے حکومت اور دیگر نجی اداروں کی طرف سے ملنے والے مراعات سے صرف وہی صحافی لطف اندوز ہوسکتا ہے جو پریس کلب کا ممبر ہو۔ اگر پاکستان کے تمام پریس کلبزکا مطالعہ کیا جائے تو ان کے ممبرز اوسطاََ ایف اے یا بی اے کی کوالیفیکیشن والے لوگ ہوتے ہیں،جبکہ ان کے مقابلے میں غیر پریس کلبی صحافیوں میں بڑی تعداد میں ایم اے جرنلزم والے،ان سے کئی گنا زیادہ ٹیلنٹڈ،تعلیم یافتہ،اور نوجوان افراد موجود ہیں۔ پریس کلبی حضرات صرف آپس میں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں،غیر پریس کلبی صحافی چاہے پِٹے یا مرے،یہ حضرات ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ بجائے اس کا دفاع کرنے کے،الٹاان کی جانب سے اس کی مزید کردار کشی کی اور یہ تاثر دینے کی کہ یہ جعلی صحافی ہے، کوشش ہوتی ہے۔مزید ستم یہ ہے کہ پریس کلبی حضرات غیر پریس کلبی صحافیوں کو پریس کلب میں شامل کرنے کی جھوٹی لالچ دے کر اپنے ذاتی متعدد پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ان سے بسا اوقات مختلف قسم کے مدد بھی لیتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت یا دیگر نجی ادارے بھی جب صحافیوں کو کوئی فائدہ دینے یا ان سے رابطہ کرنے کا ارادہ کریں تو پریس کلب کا
ہے،بات سنی اور مانی جاتی ہے،اور اسی لالچ کو استعمال کرتے ہوئے نیوز ایجنسیز کے مکار مالکان بھی کافی حد تک نئے بھرتی ہونے والے صحافیوں کو بغیر تنخواہ کے کام کرنے پہ آمادہ کرکے ان کا استہسال کر کے کماتے ہیں۔ بے شک ایک طرف ایسے صحافی بھی موجود ہیں ،جن کا معاشرے میں ایک رعب اور دبدبہ ہوتا ہے ،لیکن
صحافیوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے کہ جن کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوجائے تو ان کا کوئی نہیں پوچھتا ۔ شہر شہر ایک مخصوص ٹولہ نے قبضہ گروپ کی شکل اختیار کر کے ایک پریس کلب بنایا ہوتا ہے جس میں شمولیت کا موقع
یہ مخصوص ٹولہ کسی دوسرے صحافی کوہرگز نہیں دیتا ،اور مندرجہ بالارعب اور دبدبے سمیت صحافیوں کے لئے حکومت اور دیگر نجی اداروں کی طرف سے ملنے والے مراعات سے صرف وہی صحافی لطف اندوز ہوسکتا ہے جو پریس کلب کا ممبر ہو۔ اگر پاکستان کے تمام پریس کلبزکا مطالعہ کیا جائے تو ان کے ممبرز اوسطاََ ایف اے یا بی اے کی کوالیفیکیشن والے لوگ ہوتے ہیں،جبکہ ان کے مقابلے میں غیر پریس کلبی صحافیوں میں بڑی تعداد میں ایم اے جرنلزم والے،ان سے کئی گنا زیادہ ٹیلنٹڈ،تعلیم یافتہ،اور نوجوان افراد موجود ہیں۔ پریس کلبی حضرات صرف آپس میں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں،غیر پریس کلبی صحافی چاہے پِٹے یا مرے،یہ حضرات ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ بجائے اس کا دفاع کرنے کے،الٹاان کی جانب سے اس کی مزید کردار کشی کی اور یہ تاثر دینے کی کہ یہ جعلی صحافی ہے، کوشش ہوتی ہے۔مزید ستم یہ ہے کہ پریس کلبی حضرات غیر پریس کلبی صحافیوں کو پریس کلب میں شامل کرنے کی جھوٹی لالچ دے کر اپنے ذاتی متعدد پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ان سے بسا اوقات مختلف قسم کے مدد بھی لیتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت یا دیگر نجی ادارے بھی جب صحافیوں کو کوئی فائدہ دینے یا ان سے رابطہ کرنے کا ارادہ کریں تو پریس کلب کا
ہی رخ کرلیتے ہیں۔ ان کو صحافی صرف پریس کلب والے ہی نظر آتے ہیں۔حالانکہ پریس کلب سے باہر بھی ہزاروں صحافی ہیں۔ صحافیوں کے آپس میں اسی حسد،نا اتفاقی اور ایک دوسرے کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا سارا کا سارا فائدہ نیوز ایجنسیز کو پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیوز ایجنسیزشہر کی سطح پر بھرتی ہونے والے بیوروچیفس اور رپورٹرز کوکسی قسم کی تنخواہ وغیرہ دینے کی بجائے محض ـ’’صحافی بننے کے فوائد‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر دے دیتی ہیں،پھر جو بندہ صحافت کو ذریعہ معاش سمجھ کر اس شعبے میں آیا ہوتا ہے،اسے لینے کے دینے پڑتے ہیں۔ایسے بندے سے بھرتی کے دوران بھی نیوز ایجنسیز سیکورٹی اماؤنٹ اور ریجسٹریشن فیس کے بہانے کافی پیسے بٹورلیتی ہیں اور اس کے بعد نیوز وغیرہ اکھٹا کرنے ،رپورٹس لکھنے اور پیکیجز تیار کرنے کے سلسلے میں بھی جو پیسہ خرچ ہوتا ہے تو یہ بے چارہ جیب سے ادا کرتا ہے۔ اور جب نیوز ایجنسی سے شکوہ کرنے لگتا ہے تو نیوز ایجنسی کے ماہر نفسیات اہلکار برین واشنگ شروع کرتے ہوئے فرمانے لگتے ہیں،اوہ مائی گاڈ! تم صحافت میں کمانے کے لئے آئے ہو،اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ تم اپنے فریضے کے ساتھ مخلص ہی نہیں ہو،صحافت کا کام تو کمانے کی نیت سے نہیں، انسانیت کی خدمت کی نیت سے کرنا چاہیئے۔یہ سن کے بے چارہ سر جھکا کراپنی غلطی تسلیم کر کے بدلے میں اپنے ضمیر کو بلا وجہ ایک دو گالیاں دے کر پھر دوبارہ کام جوش و جذبے سے شروع کرنے لگتا ہے۔ بھئی جہاں تک نیت کا تعلق ہے تو صرف صحافت میں ہی نہیں،بلکہ ہر شعبے میں کام کرنے والے انسان کی نیت انسانیت کی خدمت ہونی چاہیئے،مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس انسان کو اس کی محنت کا صلہ یا تو ملے ہی نہیں یا اگر ملے بھی تومحض دو چار تعریفی الفاظ کی صورت میں،اور وہ دنیا میں باعزت زندگی گزارنے کے لئے کچھ نہ کماسکے۔ ایک انسان کو دنیا میں رہنے کے لئے روٹی،کپڑا مکان سمیت متعدد چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے،جومحض اس کی تعریفیں کرنے سے پوری نہیں ہوتی،بلکہ اس کے لئے پیسہ چاہیئے ہوتا ہے۔ ایک ادارہ اگر ایک بندے کو اپنے حاجات پوری کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تو اس ادارے پر اس بندے کا حق ہے کہ اسے اس کی مرضی اور محنت کے مطابق رقم دی جائے۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ نیوز ایجنسیز اپنے شہری سطح پر بیورو چیفس اور رپورٹرز کو کسی قسم کی تنخواہ نہیں دیتیں۔ تنخواہیں بس اینکر پرسنز کی اور نیوز کاسٹرز کی ہوتی ہیں،اور ان شعبوں میں بھی نہایت ٹیلینٹڈ اور کوالیفائڈ مرد کے مقابلے میں ایک کم ٹیلینٹڈ اور کم کوالیفائڈخاتون جس کے پاس محض خوبصورتی ہوتی ہے،کے لئے زیادہ مواقع ہوتے ہیں جس کی وجہ نیوز ایجنسیز کے کچھ صنف مخالف کی حوس رکھنے والے یاصنف مخالف کو مارکیٹنگ کے لئے ایک اچھے آلہ کے طور پراستعمال کرنے والے مالکان یا افسران ہوتے ہیں۔ہاتھ کی پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہیں۔ اس کالم کو لکھنے سے میرا مقصد ہر گز یہ تاثر دینا نہیں ہے کہ سارے پریس کلب ممبرزاورساری نیوز ایجنسیز کے سارے مالکان و افسران بری نیت والے ہیں،اچھے پریس کلب ممبرز اور نیوز ایجنسیز کے اچھے مالکان یا افسران بھی ضرور پائے جاتے ہیں،مگر آٹے میں نمک کے برابر کی مقدار میں۔
No comments:
Post a Comment