سنا ہے میڈیا اور صحافی بِکتے ہیں۔ اس سے مراد میرا سارا کا سارا میڈیا یا ہر صحافی نہیں ہے،لیکن اکثریت مراد ہے۔ یہ ایک عام سی بات ہے کہ فرض شناس افراد ہر شعبے میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ عمران خان
کے دھرنے کے دوران میڈیا اور صحافیوں کے بِکاو کامشاہدہ ہر خاص و عام نے اے آر وائی اور جیو نیوز کے نشریات دیکھ کر کیا ہوگا۔ بچہ بچہ صاف سمجھ رہا تھا کہ
جیو نیوز کو نواز شریف جبکہ اے آر وائی نیوز کو عمران اور طاہر القادری نے خریدا ہوا ہے۔ دھرنا ختم ہوگیا،وہ
وقت بھی گیا۔ مگر کچھ بِکے ہوئے صحافی اب بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ معذرت کے ساتھ اگر بعض لوگوں کو برا لگ رہا ہو،ایسی ہی کچھ ہستیوں میں محترم ’’سلیم صافی‘‘ صاحب بھی ہیں۔ بِکے ہوئے صحافیوں کے بھی دو اقسام ہیں،بعض صحافی اتنے اعلیٰ ظرف کے ہوتے ہیں کہ بِک کر اپنے ایجنڈے کے لئے کام کرنے کے باوجود وہ بکاو کے اچانک پیسوں اور شہرت کو ھضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسے پشاورانہ انداز میں اپنا مشن جاری رکھتے ہیں کہ لوگوں کو احساس ہونے ہی نہیں دیتے کہ وہ بِک گئے ہیں جبکہ کچھ صحافی اس اچانک پیسوں کے ملنے اور شہرت کو کچھ زیادہ ہی ایکسائٹڈ ہو کر ھضم کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوئے بار بار ایسی حرکات کرنا شروع کردیتے ہیں جس سے واضح طور پر ہر کوئی سمجھ جاتا ہے کہ یہ بِک چکا ہے۔ اور لوگوں کو اس سے محبت کی بجائے نفرت ہونے لگتی ہے۔ سلیم صافی نے دھرنے کے دوران جس انداز میں نواز شریف کے گیت گائے اور عمران خان کی تذلیل کی وہ آپ سب جانتے ہی ہونگے۔ لیکن لگتا ہے سلسلہ ابھی تک نہیں رکا ہے۔ عمران ریحام طلاق کے بھی دیگر بہت ساری وجوہات صحیح مگر ایک وجہ سلیم صافی کا ریحام خان سے انٹرویو لینا بھی ضرور تھی۔ کیونکہ یہ انٹر ویو صرف انٹرویو ہی نہیں تھی،بلکہ سلیم صافی صاحب نے انٹرویو کے بعد ریحام خان کو تحفے کے طور پر ایک سونے کا سیٹ بھی پیش کیا اور غالباََ مزید ہمت کر کے ، اجنبیت کی حدود کو توڑ کر ایک چادر بھی اوڑھ والی ریحام خان پر۔ اول تو یہ انٹرویو بھی ریحام خانے کے متعلق کم اور عمران خان پر طنز اور ان کی تذلیل پر زیادہ مبنی تھی،دوسری بات یہ کہ سونے کا سیٹ اور چادر تحفے میں دینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا سلیم صافی کو اپنے اور جیو نیوز کے عمران خان کے ساتھ تعلق کا اندازہ نہیں تھا؟ کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس حرکت سے عمران اور ریحام کے مابین شدید تلخی پیدا ہوسکتی ہے؟ ریحام خان کی برائی اپنی جگہ،بلا شبہ اس نے بھی برا کیا عمران کے خلاف سرگرم چینل کے عمران کے خلاف ایک سرگرم صحافی کی انٹرویو کی دعوت پر بھاگ کر وہاں پہنچ کر۔ لیکن سلیم صافی کے کردار پر بہت افسوس ہو رہا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ عمران اور ریحام کا گھر اُجاڑنے کا ٹاسک بھی ایک اسائنمنٹ کے طور پر بھاری معاوضے کے ساتھ سلیم سافی کو ملا تھا۔ اور سو اس نے اپنا ٹیلنٹ استعمال کر کے ان کا گھر اجاڑنے میں اپنے حصے کا کافی بڑا کام کر دکھا یا۔ پتا نہیں کتنا پیسا اس نے اس کے عوض لیا ہوگا اور آرام سے کھا کھا کر انجوائے کر رہا ہوگا۔ کیا صحافت کی تعریف تبدیل ہوگئی اور آج کی صحافت بلیک میلنگ کو کہتے ہیں یا پھر اس قسم کے لوگ صحافی نہیں ہیں،بلکہ صحافت کے چہرے پر بد نما داغ ہیں؟ صحافی غیر جانبدار رہ کر ہی اچھا لگتا ہے،جانبدار بن کر پھر اس میں سے صحافی کی روح نکل جاتی ہے،وہ پھر محض ایک بلیک میلر ہی رہ جاتا ہے۔ آج سے ۳،۴ سال پہلے کا ’’صحافی‘‘ سیلم صافی مجھے خود بھی بہت پسند تھا۔ ان سے مجھے بہت امیدیں وابستہ تھیں،ان کا ہر پروگرام مجھے سونا لگتا تھا، مگر آج صحافی کے بجائے بلیک میلر کے روپ میں سلیم صافی کو دیکھ کر افسوس بھی ہو رہا ہے اور ’’سب سے بھلا روپیا‘‘ کا قول بولنے والے کے لئے خراجِ تحسین کے الفاظ بھی بے ساختہ منہ سے نکل رہے ہیں۔ میں یہ بھی واضح کروں کہ میں بغیر ثبوت کے،محض کسی کو ذاتی خیال کی بنا پر مجرم ٹھرانے کے حق میں ہرگز نہیں ہوں،بلا شبہ میرے پاس ایسا کسی قسم کا کوئی دستاویزی ثبوت یا ویڈیو ریکارڈنگ تو نہیں ہے کہ جن کی بنیاد پر میں سلیم سافی یا جیو نیوز کے بارے میں یہ الزام لگا سکوں کہ انہوں نے اینٹی عمران ایجنڈا پر کام کرنے کے لئے نواز شریف یا اس کے اتحادیوں یا دیگر عمران دشمنوں سے رقم لی ہوئی ہے،لیکن ان کے عمران کے حوالے سے منفی رویوں،قول و فعل اور کردار کو دیکھ کر یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہوگا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے پارٹی کے اشتہارات چلانا تو ایک واضح ثبوت ہے کیونکہ اشتہار کے تو ظاہر ہے پیسے دیئے جاتے ہیں۔
کے دھرنے کے دوران میڈیا اور صحافیوں کے بِکاو کامشاہدہ ہر خاص و عام نے اے آر وائی اور جیو نیوز کے نشریات دیکھ کر کیا ہوگا۔ بچہ بچہ صاف سمجھ رہا تھا کہ
جیو نیوز کو نواز شریف جبکہ اے آر وائی نیوز کو عمران اور طاہر القادری نے خریدا ہوا ہے۔ دھرنا ختم ہوگیا،وہ
وقت بھی گیا۔ مگر کچھ بِکے ہوئے صحافی اب بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ معذرت کے ساتھ اگر بعض لوگوں کو برا لگ رہا ہو،ایسی ہی کچھ ہستیوں میں محترم ’’سلیم صافی‘‘ صاحب بھی ہیں۔ بِکے ہوئے صحافیوں کے بھی دو اقسام ہیں،بعض صحافی اتنے اعلیٰ ظرف کے ہوتے ہیں کہ بِک کر اپنے ایجنڈے کے لئے کام کرنے کے باوجود وہ بکاو کے اچانک پیسوں اور شہرت کو ھضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسے پشاورانہ انداز میں اپنا مشن جاری رکھتے ہیں کہ لوگوں کو احساس ہونے ہی نہیں دیتے کہ وہ بِک گئے ہیں جبکہ کچھ صحافی اس اچانک پیسوں کے ملنے اور شہرت کو کچھ زیادہ ہی ایکسائٹڈ ہو کر ھضم کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوئے بار بار ایسی حرکات کرنا شروع کردیتے ہیں جس سے واضح طور پر ہر کوئی سمجھ جاتا ہے کہ یہ بِک چکا ہے۔ اور لوگوں کو اس سے محبت کی بجائے نفرت ہونے لگتی ہے۔ سلیم صافی نے دھرنے کے دوران جس انداز میں نواز شریف کے گیت گائے اور عمران خان کی تذلیل کی وہ آپ سب جانتے ہی ہونگے۔ لیکن لگتا ہے سلسلہ ابھی تک نہیں رکا ہے۔ عمران ریحام طلاق کے بھی دیگر بہت ساری وجوہات صحیح مگر ایک وجہ سلیم صافی کا ریحام خان سے انٹرویو لینا بھی ضرور تھی۔ کیونکہ یہ انٹر ویو صرف انٹرویو ہی نہیں تھی،بلکہ سلیم صافی صاحب نے انٹرویو کے بعد ریحام خان کو تحفے کے طور پر ایک سونے کا سیٹ بھی پیش کیا اور غالباََ مزید ہمت کر کے ، اجنبیت کی حدود کو توڑ کر ایک چادر بھی اوڑھ والی ریحام خان پر۔ اول تو یہ انٹرویو بھی ریحام خانے کے متعلق کم اور عمران خان پر طنز اور ان کی تذلیل پر زیادہ مبنی تھی،دوسری بات یہ کہ سونے کا سیٹ اور چادر تحفے میں دینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا سلیم صافی کو اپنے اور جیو نیوز کے عمران خان کے ساتھ تعلق کا اندازہ نہیں تھا؟ کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس حرکت سے عمران اور ریحام کے مابین شدید تلخی پیدا ہوسکتی ہے؟ ریحام خان کی برائی اپنی جگہ،بلا شبہ اس نے بھی برا کیا عمران کے خلاف سرگرم چینل کے عمران کے خلاف ایک سرگرم صحافی کی انٹرویو کی دعوت پر بھاگ کر وہاں پہنچ کر۔ لیکن سلیم صافی کے کردار پر بہت افسوس ہو رہا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ عمران اور ریحام کا گھر اُجاڑنے کا ٹاسک بھی ایک اسائنمنٹ کے طور پر بھاری معاوضے کے ساتھ سلیم سافی کو ملا تھا۔ اور سو اس نے اپنا ٹیلنٹ استعمال کر کے ان کا گھر اجاڑنے میں اپنے حصے کا کافی بڑا کام کر دکھا یا۔ پتا نہیں کتنا پیسا اس نے اس کے عوض لیا ہوگا اور آرام سے کھا کھا کر انجوائے کر رہا ہوگا۔ کیا صحافت کی تعریف تبدیل ہوگئی اور آج کی صحافت بلیک میلنگ کو کہتے ہیں یا پھر اس قسم کے لوگ صحافی نہیں ہیں،بلکہ صحافت کے چہرے پر بد نما داغ ہیں؟ صحافی غیر جانبدار رہ کر ہی اچھا لگتا ہے،جانبدار بن کر پھر اس میں سے صحافی کی روح نکل جاتی ہے،وہ پھر محض ایک بلیک میلر ہی رہ جاتا ہے۔ آج سے ۳،۴ سال پہلے کا ’’صحافی‘‘ سیلم صافی مجھے خود بھی بہت پسند تھا۔ ان سے مجھے بہت امیدیں وابستہ تھیں،ان کا ہر پروگرام مجھے سونا لگتا تھا، مگر آج صحافی کے بجائے بلیک میلر کے روپ میں سلیم صافی کو دیکھ کر افسوس بھی ہو رہا ہے اور ’’سب سے بھلا روپیا‘‘ کا قول بولنے والے کے لئے خراجِ تحسین کے الفاظ بھی بے ساختہ منہ سے نکل رہے ہیں۔ میں یہ بھی واضح کروں کہ میں بغیر ثبوت کے،محض کسی کو ذاتی خیال کی بنا پر مجرم ٹھرانے کے حق میں ہرگز نہیں ہوں،بلا شبہ میرے پاس ایسا کسی قسم کا کوئی دستاویزی ثبوت یا ویڈیو ریکارڈنگ تو نہیں ہے کہ جن کی بنیاد پر میں سلیم سافی یا جیو نیوز کے بارے میں یہ الزام لگا سکوں کہ انہوں نے اینٹی عمران ایجنڈا پر کام کرنے کے لئے نواز شریف یا اس کے اتحادیوں یا دیگر عمران دشمنوں سے رقم لی ہوئی ہے،لیکن ان کے عمران کے حوالے سے منفی رویوں،قول و فعل اور کردار کو دیکھ کر یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہوگا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے پارٹی کے اشتہارات چلانا تو ایک واضح ثبوت ہے کیونکہ اشتہار کے تو ظاہر ہے پیسے دیئے جاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment