’’ ہر شے کا خالق ہوتا ہے ‘‘ کا قانون وجودِ خدا کے لئے کیوں نہیں بھئی؟ |
تحریر: ارشد خان آستِکؔ (لیدبیرؔ) اردوشاعر و کالم نگار
ملحدین اگر کروڑوں اور اربوں چیزوں کے بارے میں یہ یقین کر سکتے ہیں کہ یہ خود بخود پیدا ہوئے ہیں تو پھر خدا کے وجود پہ یہ سوال اٹھانے کا بھلا کیا جواز رہ جاتا ہے ان کے ہاں کہ خدا کو کس نے بنایا؟ کروڑوں اور اربوں چیزوں کا بغیر خالق کے بننا ان کے لئے باعث ِ تعجب نہیں،لیکن جب بات خدا کے وجود کی آجاتی ہے تو خدا کے لئے پھر یہ لوگ خالق کی ضرورت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں چیزوں کا خود بخود
موجود ہونے کے مقابلے میں ان سب کے ایک خالق ذات کا خود بخود موجود ہونے کا یقین کرنا زیادہ آسان ہے۔ بہرحال ہم مسلمان جب ’’ہر شے کا خالق ہوتا ہے‘‘ کی
دلیل کو لے کر ملحدوں کو ہرا کر خدا کا وجود ماننے پر مجبور کرلیتے ہیں تو آگے سے یہ لوگ پھر اس سوال سے ہم پہ وار کرلیتے ہیں کہ چلو بھئی مان لیا کہ ہر
شے کا خالق ہوتا ہے ،پس کائنات کا خالق تو خدا ہوا،لیکن یہ بتائیں کہ خدا کا خالق پھر کون ہے؟ ’’ہر شے کا خالق ہوتا ہے‘‘ کاقانون خدا کے لئے کیوں نہیں؟ یہ سوال کس قدر بچگانہ ہے،اس کی وضاحت عرض ہے۔ اگر کوئی فرض کرے کہ خدا کو بھی کسی نے پیدا کیا ہے،تو سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے خا لق کو پھر کس نے پیدا کیا؟ جواب دینے والا اگر کہے کہ اسے بھی ایک خالق نے بنایا ہے۔تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچھا تو خدا کے خالق کے خالق کوکس نے پیدا کیا؟ پھر جواب دینے والے کے پاس سوائے یہ کہنے کے کچھ نہ ہوگا کہ’’ اسے بھی ایک خالق نے بنایا ہے۔‘‘ یہ جواب کہ ’’اسے بھی ایک خالق نے بنایا ہے‘‘سوال کرنے والے کو مطمئن نہیں کر سکتا اور اس کا سوال سوال ہی رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تسلی بخش جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک پر مشتمل خالقوں کا یہ سلسلہ کہیں پہ جا کر تو رکے گا ناں؟ یہ ایک دوسرے کو بنانے کے سلسلے کی آخری حد تو ضرور ہوگی ناں؟ کہاں تک یہ سلسلہ آخر جاری رہے گا؟عقل کا تقاضا ہے کہ ضرور کوئی حد ہوگی اور اس آخری حد پر موجود Topmost خالق کو کسی نے تخلیق نہیں کیا ہوگا بلکہ وہ خود بخود پہلے سے موجود ہوگا اور پھر ظاہر سی بات ہے کہ باقی ساری چیزیں اس کی مخلوقات کہلائیں گی۔ بڑائی اور تخلیق کی اس آخری حد پر موجود ذات کو ہی خدا کہتے ہیں۔یہی خدا کی تعریف ہے۔انسانی عقل اور علمِ سائنس دونوں حدود پر یقین رکھتے ہیں۔Infinity یا لا محدودیت کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔کسی سلسلے کی کوئی حد نہیں یہ اندھیرے میں رہنے والی بات ہوئی،جس پر ایک جاہل انسان کو تو قائل کیا جا سکتا ہے مگر ایک تعلیم یافتہ اور سائنسی سوچ رکھنے والے انسان کو تب تک سکون نہیں ملے گا جب تک اس نے حد کا تعین نہ کیا ہو۔پرانے زمانے کا ایک جاہل انسان یہ کہتا تھا کہ زمین کا وزن لا محدود ہے جبکہ ایک سائنسدان کے لئے محض یہ جواب کافی نہ تھااور اس نے تحقیق جاری رکھ کر زمین کے وزن کی حد کا تعین کرلیا اور آج وزن معلوم ہے جو ہے (6x10^24)کلو گرام۔ سائنس میں اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں۔پس سائنس حدود پر یقین رکھتا ہے۔ جب سائنسدان کو چھوٹے سے چھوٹے ذرے کی آخری حد کا ہونا (ایٹم کا نظریہ)ممکن دکھائی دیتا ہے،تو وہاں بڑائی کی کسی حد کا تعین بھی خلاف ِ فطرت نہیں ہے،کہ تمام طاقتوں ،اختیارات اور نیچرل فورسز کنٹرول رکھنے کا بھی ایک آخری بڑا سر چشمہ ہو،جس سے بڑھ کر کوئی اور نہ ہو۔ اگر ہم کہیں کہ کائنات میں موجود ستاروں اور سیاروں اور ان کے اندر کی چیزوں میں مختلف حالتوں میں پائی جانے والی یہ توانائی پرائمری نیبولا (Primary Nebula) سے حاصل ہوئی ہے جہاں یہ توانائی مخفی توانائی کی شکل میں پڑی ہوئی تھی اور دھماکے کے ساتھ یہ حرکی توانائی،حرارتی توانائی،روشنی کی توانائی اور دیگر مختلف شکلیں اختیار کر کے ہمارے سامنے کائنات میں ہر جگہ موجود ہے،تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پرائمری نیبیولا کو یہ توانائی کس نے مہیا کی؟ اگر عقل لڑا لڑا کر اس کے لئے بھی کوئی سائنسی بہانہ ڈھونڈ ہی لیا جائے کہ اس میں توانائی فلاں جگہ سے آئی۔ تو سوال پھر سوال رہ گیا کہ اس فلاں جگہ کو توانائی کہاں سے ملی؟ پس اس قسم کے ان گنت سوالات ہیں جو انسان کو بڑائی کی آخری حد کا تعین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔اور مذاہب میں بڑائی کی اسی آخری حد کو ہی خدا کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب سائنس توانائی کے بارے میں یہ یقین رکھ سکتا ہے کہ ’’توانائی نہ تخلیق ہوسکتی ہے،نہ ختم ہوسکتی ہے،یہ پہلے سے موجود تھی ،ہے اور رہے گی۔‘‘
موجود ہونے کے مقابلے میں ان سب کے ایک خالق ذات کا خود بخود موجود ہونے کا یقین کرنا زیادہ آسان ہے۔ بہرحال ہم مسلمان جب ’’ہر شے کا خالق ہوتا ہے‘‘ کی
دلیل کو لے کر ملحدوں کو ہرا کر خدا کا وجود ماننے پر مجبور کرلیتے ہیں تو آگے سے یہ لوگ پھر اس سوال سے ہم پہ وار کرلیتے ہیں کہ چلو بھئی مان لیا کہ ہر
شے کا خالق ہوتا ہے ،پس کائنات کا خالق تو خدا ہوا،لیکن یہ بتائیں کہ خدا کا خالق پھر کون ہے؟ ’’ہر شے کا خالق ہوتا ہے‘‘ کاقانون خدا کے لئے کیوں نہیں؟ یہ سوال کس قدر بچگانہ ہے،اس کی وضاحت عرض ہے۔ اگر کوئی فرض کرے کہ خدا کو بھی کسی نے پیدا کیا ہے،تو سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے خا لق کو پھر کس نے پیدا کیا؟ جواب دینے والا اگر کہے کہ اسے بھی ایک خالق نے بنایا ہے۔تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچھا تو خدا کے خالق کے خالق کوکس نے پیدا کیا؟ پھر جواب دینے والے کے پاس سوائے یہ کہنے کے کچھ نہ ہوگا کہ’’ اسے بھی ایک خالق نے بنایا ہے۔‘‘ یہ جواب کہ ’’اسے بھی ایک خالق نے بنایا ہے‘‘سوال کرنے والے کو مطمئن نہیں کر سکتا اور اس کا سوال سوال ہی رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تسلی بخش جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک پر مشتمل خالقوں کا یہ سلسلہ کہیں پہ جا کر تو رکے گا ناں؟ یہ ایک دوسرے کو بنانے کے سلسلے کی آخری حد تو ضرور ہوگی ناں؟ کہاں تک یہ سلسلہ آخر جاری رہے گا؟عقل کا تقاضا ہے کہ ضرور کوئی حد ہوگی اور اس آخری حد پر موجود Topmost خالق کو کسی نے تخلیق نہیں کیا ہوگا بلکہ وہ خود بخود پہلے سے موجود ہوگا اور پھر ظاہر سی بات ہے کہ باقی ساری چیزیں اس کی مخلوقات کہلائیں گی۔ بڑائی اور تخلیق کی اس آخری حد پر موجود ذات کو ہی خدا کہتے ہیں۔یہی خدا کی تعریف ہے۔انسانی عقل اور علمِ سائنس دونوں حدود پر یقین رکھتے ہیں۔Infinity یا لا محدودیت کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔کسی سلسلے کی کوئی حد نہیں یہ اندھیرے میں رہنے والی بات ہوئی،جس پر ایک جاہل انسان کو تو قائل کیا جا سکتا ہے مگر ایک تعلیم یافتہ اور سائنسی سوچ رکھنے والے انسان کو تب تک سکون نہیں ملے گا جب تک اس نے حد کا تعین نہ کیا ہو۔پرانے زمانے کا ایک جاہل انسان یہ کہتا تھا کہ زمین کا وزن لا محدود ہے جبکہ ایک سائنسدان کے لئے محض یہ جواب کافی نہ تھااور اس نے تحقیق جاری رکھ کر زمین کے وزن کی حد کا تعین کرلیا اور آج وزن معلوم ہے جو ہے (6x10^24)کلو گرام۔ سائنس میں اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں۔پس سائنس حدود پر یقین رکھتا ہے۔ جب سائنسدان کو چھوٹے سے چھوٹے ذرے کی آخری حد کا ہونا (ایٹم کا نظریہ)ممکن دکھائی دیتا ہے،تو وہاں بڑائی کی کسی حد کا تعین بھی خلاف ِ فطرت نہیں ہے،کہ تمام طاقتوں ،اختیارات اور نیچرل فورسز کنٹرول رکھنے کا بھی ایک آخری بڑا سر چشمہ ہو،جس سے بڑھ کر کوئی اور نہ ہو۔ اگر ہم کہیں کہ کائنات میں موجود ستاروں اور سیاروں اور ان کے اندر کی چیزوں میں مختلف حالتوں میں پائی جانے والی یہ توانائی پرائمری نیبولا (Primary Nebula) سے حاصل ہوئی ہے جہاں یہ توانائی مخفی توانائی کی شکل میں پڑی ہوئی تھی اور دھماکے کے ساتھ یہ حرکی توانائی،حرارتی توانائی،روشنی کی توانائی اور دیگر مختلف شکلیں اختیار کر کے ہمارے سامنے کائنات میں ہر جگہ موجود ہے،تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پرائمری نیبیولا کو یہ توانائی کس نے مہیا کی؟ اگر عقل لڑا لڑا کر اس کے لئے بھی کوئی سائنسی بہانہ ڈھونڈ ہی لیا جائے کہ اس میں توانائی فلاں جگہ سے آئی۔ تو سوال پھر سوال رہ گیا کہ اس فلاں جگہ کو توانائی کہاں سے ملی؟ پس اس قسم کے ان گنت سوالات ہیں جو انسان کو بڑائی کی آخری حد کا تعین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔اور مذاہب میں بڑائی کی اسی آخری حد کو ہی خدا کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب سائنس توانائی کے بارے میں یہ یقین رکھ سکتا ہے کہ ’’توانائی نہ تخلیق ہوسکتی ہے،نہ ختم ہوسکتی ہے،یہ پہلے سے موجود تھی ،ہے اور رہے گی۔‘‘
(Law of Conservation of Energy) تو پھر خدا کے بارے میں بھی یہی یقین رکھنا سائنس کے ہاں قطعاََ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete