السلام علیکم۔ تجسس فورم میں خوش آمدید اور ویلکم۔۔۔ تجسس فورم پر آپ پا سکتے ہیں ۔۔۔ الف۔قومی اور بین الاقوامی امور سے متعلق خبریں و معلومات ، جنرل نالج اورشعر و شاعری سے متعلق مواد۔۔۔۔ب۔مختلف بہترین تجزیہ نگاروں کے خیالات پر مبنی کالم /مضامین/آرٹیکلز۔۔۔ج۔تعلیم ،درس و تدریس اورآئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سےمتعلق مواد جن میں پی ڈی ایف بکس/نوٹس،ٹیوشن وٹیوشن ٹیچرز/ٹیوٹرز،تعلیمی اداروں ،ڈیٹ شیٹس وامتحانات کے نتائج سے متعلق معلومات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔فی الحال اس فورم کا یہی ایک ہی ویب سائٹ ہے۔ مستقبل قریب میں ایک روزنامہ اخبار اور ایک ماہنامہ رسالہ بھی لانچ کرنے کا ارادہ ہے ان شا اللہ۔

Friday, September 2, 2016

"قندیل بلوچ کے ساتھ ہمدردی میں تجاوز"

قندیل بلوچ کے لئے ہم دعائے مغفرت ضرور کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو ہوا اسے ظلم بھی سمجھتے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ ہم ان کے برے کاموں کو نیکیاں نہیں کہہ سکتے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قندیل بلوچ اولیاء میں سے تھیں۔اور جو کچھ اس نے زندگی میں کیا ہے وہ نعوذ با اللہ دین کی یا انسانیت کی کوئی خدمت تھی۔ اس کا کوئی یہ بھی مطلب نہ لے کہ ہمیں خود ولی ہونے کا دعوٰی ہے۔
جس طرح وہ گنہگار تھی اسی طرح ہم بھی گنہگار ہیں اور شاید ان سے دو تین درجے بڑھ کر ہو۔لیکن کم سے کم گنہگار وہ بھی تھی۔نہ اولیاء میں سے تھیں ؛ نہ قوم کی فخر تھیں کیونکہ قوم کے لئے اس نے کچھ نہیں کیا ہے؛ اسی طرح نہ وہ شہید ہے کیونکہ اللہ کی راہ میں یا ملک و قوم کی خاطر نہیں ماری گئی ہے ؛ اپنے پرائیویٹ ذاتی معاملات کے لئے مری ہے۔اسی طرح نہ ہی ہم ان کے ظالمانہ قتل کی آڑ میں دیگر زندہ قندیلوں کے ساتھ ہمدردی کر کے ان کو ان کے اقوال و افعال مزید سینا تان کر جاری و ساری رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ بعض لوگ
ہمدردی میں تجاوز کر جاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں بے چاری کو ورغلا کر اس رستے پر لگایا گیا تھا تو ان کے لئے عرض ہے کہ وہ ایک عاقل ؛ بالغ اور mentally ok خاتون تھی ؛ نہ وہ بچی تھی ؛ نہ mentally disturbe نہ کچی جوان عورت۔دو تین شادیاں بھی رچا چکی تھی۔تو ایسے بندے کو خوب علم ہوتا ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔بعض لوگ کہتے ہیں دل کی بڑی نیک تھی ؛ یہ فحاشی وغیرہ تو وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کر رہی تھی۔او بھائی یہ کونسی منطق ہوئی؟ اس منطق کے حساب سے تو پھر ہر چور بھی کہے گا کہ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری پہ اتر آیا ؛ ہر ڈاکو بھی یہی کہے گا ؛ ہر کرپٹ بندہ یہی کہے گا۔ اور ہونگے بھی اس قسم کے لوگ تقریباً 90 فی صد غریب یا بے روزکار۔کسی میر زادے یا 17 و 18 گریڈ کے آفیسر کو کیا ضرورت ہے کہ وہ چوری کرے اور ڈاکے ڈالے؟۔ اس منطق کے حساب سے تو کوئی بھی چور ؛ ڈاکو ؛ اجرتی قاتل ؛ ناپ تول میں کمی والا ؛ کوئی جعلساز ہر بندہ معصوم ہوا۔ کسی بھی مندرجہ بالا قسم کے فرد کی نہ مذمت ہونی چاہئیے نہ اسے سزا ملنی چاہئیے۔ جن کا یہ کہنا ہے کہ انتہائی غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر قندیل نے فحاشی شروع کی تو میں کہوں گا کہ روئے زمین پر عزت کے پیشے اور بھی ہیں۔یہاں پر میں آپ کو وہی جواب دوں گا جو اکثر اس وقت میرا ہوتا ہے جب کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کو کبھی بھی کسی طوائف سے ہمدردی نہیں ہوتی کیوں؟۔تو میں جواب دیتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان طلب کرے اور اسے نہ ملے۔اس کی بجائے کوئی عزت کا ذریعہ روزگار اختیار کرے طوائف۔کسی کےگھر میں کام کاج کر کے کمائے ؛ یا ذاتی طور پر ٹیلرنگ سیکھ کر کپڑے سی لیا کرے۔ کپڑے بیچ لیا کرے۔گھر میں کاسمیٹیکس کا تھوڑا بہت سامان فروخت کیا کریں۔اسی طرح اگر تھوڑی بہت تعلیم یافتہ ہے تو سکول یا کالج میں ٹیچنگ جوائن کرے ؛ گھر میں ٹیوشنز پڑھائے ؛ اگر صرف قرآن ہی پڑھا ہو تو محلے کے بچوں کو قرآن پڑھایا کرے اور اگر کچھ بھی نہ ہو تو گھروں میں کام کاج کا جاب تو آسانی سے اسے مل سکتا ہے۔بندہ ایک وقت کھائے اور ایک وقت نہ کھائے مگر عزت سلامت رہے۔ضروری تو نہیں کہ عیاشی کرے انسان اپنی بساط سے بڑھ کر خرچوں کا عادی بنائے خود کو۔طوائف وہی عورت بنتی ہے جو محنت سے جی چراتی ہے ؛ کام چور ہوتی ہے ؛ تیار نوالہ منہ میں پسند کرتی ہے ؛ اور اپنے آپ کو امیر ظاہر کرنا چاہتی ہے اور اپنی بساط سے بڑھ کر پیسہ لگانے کی عادی ہو۔ اور کم وقت میں زیادہ کمانا چاہتی ہو۔ ایک مرتبہ میں آفس میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک عورت پن ؛ بال پوائنٹس اور مارکر وغیرہ پر مشتمل بنڈل ہاتھ میں لئے اندر آئی۔ یہ چیزیں وہ بیچ رہی تھی۔ مجھے چونکہ کچھ چاہئیے تو تھا نہیں لیکن اسے خالی لوٹانا مناسب نہ سمجھتے ہوئے اسےکچھ پیسے تھما دیے جس پروہ لینے سے انکار کرتے ہوئے بولی کہ نا صاحب۔ میں بھکارن نہیں ہوں۔آپ مجھے اگر پیسے دینا ہی چاہتے ہیں تو کچھ خریدنا ہوگا آپ کو۔ ورنہ ایسے ہی مجھے پیسے نہیں چاہئیے۔پھر محبوراً میں نے خریداری کی۔جب وہ چلی گئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ ہوتی ہے غیرتی عورت۔ وہ کوئی بد صورت عورت بھی نہیں تھی۔طوائف بنتی یا فحاشی کا رستہ اپناتی تو مختصر عرصے میں کروڑوں نہیں تو لاکھوں میں ضرور کھیل رہی ہوتی۔مگر اس نے اپنی حیاء کی لاج رکھتے ہوئے اپنے لئے یہ مشکل رستہ چنا کہ دھوپ ہو یا بارش؛ گرمی ہو یا سردی لیکن وہ صبح سویرے گھرسے پن ؛ بال پوائنٹس اور مارکرز پر مشتمل بنڈل اٹھا لیتی ہے اور سارا دن مختلف دفاتر میں گھومتی پھرتی ہے جس میں اسے کبھی کلاس فور ملازمین کی یہ ڈانٹ ڈپٹ بھی سننی پڑتی ہے کہ جاؤ اپنا کام کرو اندر صاحبان میٹنگ میں مصروف ہیں تو کبھی آفیسرز کی مغرورانہ نظراندازی برداشت کرنی پڑتی ہے۔اور جب کوئی اس سے کچھ خریدتا بھی ہے تو 10 روپے کا پن ؛ وہ بھی محض ایک۔ظاہر سی بات ہے پن انسان کو بنڈلز میں تو نہیں چاہیئے ہوتے۔ تو قندیل بلوچوں سے اس قسم کی عورتیں ہزار درجے افضل ہیں جو غربت تو سہتی ہیں مگر عزت گنوانے نہیں دیتیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ مری ہوئی قندیلوں کے لئے دعا ئے مغفرت کرنی چاہئیے ۔اللہ قندیل بلوچ اور دیگر مری ہوئی ان جیسیوں کے تمام گناہ معاف فرمائیں ؛ لیکن زندہ قندیلوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئےاپنے کرتوت کو جاری رکھنے کی ؛ بلکہ ان کی وینا ملک کی طرح اصلاح کی کوشش کرنی چاہیئے۔ دوسری بات یہ کہ گو کہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ مرے ہوئے کی برائی بیان نہ ہو مگر یہ بھی ہے کہ جیسا ریکارڈ اپنے اعمال کا آپ نے دنیا میں چھوڑا ہو وہ لوگوں کے ذہنوں سے دھویا نہیں جاسکتا اور خاص کر اس میڈیا کے دور میں تو بالکل بھی نہیں؛ اچھا آپ نے کیا ہو تو اچھے الفاظ میں یاد رکھے جاؤگے ؛ براکیا ہو تو برے الفاظ میں؛ تو گو کہ کہنا نہیں چاہیئے ؛ ہم کہنا تجویز نہیں کرتے لیکن اگر کوئی کہے کہ قندیل بلوچ ایک فاحشہ تھی تو اس پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ؛ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ یہی کچھ تھی۔ نہ حافظہ ؛ عالمہ یا اللہ کی ولیہ تھی ؛ نہ ہی سائنسدان ؛ ڈاکٹر ؛ اینجینئیر ؛ یا استانی تھی ؛ اگر کچھ تھی تو بس یہی تھی۔یہ ٹھیک ہے کہ اسلام مردے کی برائی بیان کرنے کو پسند نہیں کرتا مگر ایسا بھی نہیں کہ اسلام ہمیں کسی کی برائی کو نیکی کہنے یا کم سے کم برائی نہ کہنے کی تعلیم دیتا ہو۔یا یہ سکھاتا ہو کہ مرے ہوئے انسان کے کئیے گئے گناہوں کو نیکیاں declare کیا جائے۔بندہ مر بھی جائے تو اس کے کئیے گئے گناہوں کو اس کے گناہ ہی کہا جائے گا؛ یہی تو وجہ ہے کہ ہم مرنے والے کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس کے گناہوں کو بخش دے۔ورنہ اگر اس کے گناہ گناہ نہ رہتے مرنے کے بعد تو ہم کیوں اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے۔تو لہٰذا قندیل جو کچھ کر رہی تھی وہ بہرحال گناہ تھا اور وہ ایک گنہگار عورت تھی۔ اور ہم بھی گنہگار ہیں۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ہماری بھی مغفرت بھی فرمائیں اور موت سے پہلے زندگی کے ساتھ سنجیدگی اور گناہوں سے دوری اور نیکیوں کی قربت عطاء فرمائیں آمین۔
(تحریر: ارشد خان آستک ؛ شاعر و کالم نگار)

1 comment:

  1. دُر فٹے منہ تمھارا ایسا فضول کالم لکھنے پر۔ دوسروں کے بظاہر گناہ تو جتاتے ہو مگر اپنے باطن کے گناہوں پر نظر ہوتی تو کسی کو فاحشہ یا گناہ گار نہ قرار دیتے۔ گناہگار یا نیکو کار یہ صرف اور صرف اللّہ جانتا ہے اور کیا معلوم وہ کسی کی نہ جانے کس نیکی یا خوبی کو پسند کرتا ہو اور اُسے اعلٰی درجہ عطا فرما دے؟ لہذا آپ کو کسی پر یوں انگلی اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں اور دوسرے کوئی جائز کام یا نوکری لینا آدمی کے اپنے اختیار میں نہیں ۔ اگر کوئی طوائف بھی ہے تو کیا پتا کتنی مجبوری اور ناکام نوکری کی تلاش کے بعد بنی ہو؟ ہم بس گھر بیٹھ کر اندازے قیاس آرائیاں اور بھاشن ہی دے سکتے ہیں کسی کے حالات کا اندازہ صرف اسکے جوتے پہن کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ واللّہ اعلم!

    ReplyDelete