السلام علیکم۔ تجسس فورم میں خوش آمدید اور ویلکم۔۔۔ تجسس فورم پر آپ پا سکتے ہیں ۔۔۔ الف۔قومی اور بین الاقوامی امور سے متعلق خبریں و معلومات ، جنرل نالج اورشعر و شاعری سے متعلق مواد۔۔۔۔ب۔مختلف بہترین تجزیہ نگاروں کے خیالات پر مبنی کالم /مضامین/آرٹیکلز۔۔۔ج۔تعلیم ،درس و تدریس اورآئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سےمتعلق مواد جن میں پی ڈی ایف بکس/نوٹس،ٹیوشن وٹیوشن ٹیچرز/ٹیوٹرز،تعلیمی اداروں ،ڈیٹ شیٹس وامتحانات کے نتائج سے متعلق معلومات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔فی الحال اس فورم کا یہی ایک ہی ویب سائٹ ہے۔ مستقبل قریب میں ایک روزنامہ اخبار اور ایک ماہنامہ رسالہ بھی لانچ کرنے کا ارادہ ہے ان شا اللہ۔

Thursday, September 1, 2016

"ادارہ تجسس کے بانی اور ڈائریکٹر ارشد خان آستِکؔ کا تعارف"



 ارشد خان آستِکؔ کے اجداد کا تعلق شمالی وزیرستان  کے قبیلہ "تنڑی " سے ہے۔ پشتو ن قبائل کے جتنے بھی شجرے لکھے گئے ہیں اور جس  جس نے بھی لکھے ہیں،سب میں متفقہ طور پر اس قبیلے کا تعارف ان الفاظ میں ملتا ہے کہ " یہ تمام پشتون قبائل میں سے سب سے زیادہ پشتو کے روایات پر قائم رہنے والا،بہادر،سرفروش،غیرتی اور ذہین قبیلہ ہے۔ اور اس کے افراد شکل و صورت کے لحاظ سے بھی خوبصورت یعنی اچھے قد و قامت،سرخ و سفید رنگت اور توانا جسم کے مالک ہوتے ہیں۔ "یہ  قبیلہ ان  چند قبائل میں سے ایک ہے کہ جس کی زمین ،جائیداد اور افراد ،سب کچھ قیام پاکستان کے دوران تقسیم ہوگیا اوریوں اس قبیلے کا ایک حصہ پاکستان کے علاقے "شمالی وزیرستان " میں رہ گیا جبکہ ایک حصہ افغانستان کے علاقے "خوست" میں رہ گیا۔ارشد خان آستِکؔ کے آباو اجداد بھی "شمالی وزیرستان " یعنی پاکستان کے حصے کے تانڑیوں میں آگئے۔تاہم قیام پاکستان سے پہلے ہی  آپ کے داد صاحب مرحوم اور دادی صاحبہ مرحومہ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا منتقل ہوچکے تھےاور  پاکستان کے پہلے بننے والے شناختی کارڈز  میں ان کی سرگودھا کی شہریت   ہی لکھی گئی اور یوں پاکستان کے پہلے بننے والے شہریوں میں  آپ کے دادا اور دادی کو شامل ہونے کا اعزاز مل گیا۔ آپ کے والد صاحب محبوب خان   کا سارا بچپن اور کچھ عرصہ جوانی کا بھی شہر سرگودھا میں بیتا۔شادی ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد  پشاور منتقلی ہوئی ۔آپ کی والدہ صاحبہ بھی شمالی وزیرستان کے قبیلہ "داوڑ" سے تعلق رکھتی ہیں۔ارشد خان آستِک 30 مارچ 1992 کو  حیات آباد (پشاور) میں پیدا ہوئے۔ بعد میں آپ کی فیملی میاں گل کلے مردان منتقل ہوئی۔  کچھ عرصہ یہاں  رہنے کے بعد آپ کی فیملی مردان ہی میں  شوگر مل کے سامنے لیبر کالونی میں منتقل ہوئی اور تاحال یہاں رہائش پذیر ہے۔ آپ کے والد صاحب محکمہ سول ڈیفنس مردان کے انچارج ہیں۔ارشد خان آستِکؔ نے ابتدائی تعلیم لیبر کالونی ہی کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے حاصل کی اور میٹرک بھی یہی کے گورنمنٹ ہائی سکول سے کیا۔میٹرک   کا امتحان دینے کے ساتھ ہی لیبر کالونی کی مین مسجد میں   ماسٹر عالمگیر صاحب ،قاری حافظ شاہد طوروی صاحب اور قاری محمد افتخار صاحب کی زیر نگرانی صرف ایک ہی ایوننگ شفٹ کلاس پر مشتمل"مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن "  سے قرآن عظیم الشان کو حفظ کرنے کی سعادت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک ترجمے اور  بنیادی دینی مسائل  سے بھی آگہی حاصل کی۔اس کے بعد    ایف ایس سی کا امتحان " دی مردان ماڈل سکول اینڈ کالج مردان " سے پاس کیا۔ ایف ایس سی کے فوراََ بعد ہی آپ نے  قاری افتخار صاحب جو کہ آپ کے مدرسے کے استاد بھی تھے، کے زیر نگرانی چلنے والے سکول "دی پاک پوانیئرز سکول مردان" میں ٹیچنگ جوائن کرکے اور شام کے وقت ٹیویشنز پڑھانا شروع کر کے باقاعدہ  اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ٹیچنگ چونکہ ہاف ڈے کے دورانئیے پر مشتمل تھا اس لئے ساتھ ساتھ  بی بی اے کرنے کے لئے عبدلولی خان یونیورسٹی  مردان میں داخلہ لیا لیکن   کچھ یہ فیلڈ طبیعت کو نہ بھائی،اور کچھ دیگر مسائل ایسے پیش آئے کہ جن کی  وجہ سے آپ کو محض  ایک سال اور کچھ مہینے بعد بی بی اے چھوڑ نا پڑا۔اس کے بعدایک نجی ادارے کی طرف سے شروع کئے گئے ایک پراجیکٹ میں ایفیلئشن پر پشاور  یونیورسٹی سے   ایم ایس سی فزکس کرنے کے ساتھ ساتھ  علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پرائیویٹ  ایم انگلش کیا۔اس دوران بھی ٹیچنگ کا سلسلہ جاری رہا اور "پاک پوانئیرز سکول مردان " کے بعد آپ "مردان پبلک سکول مردان " میں ٹیچر رہے جہاں آپ نے  سیکنڈ شفٹ میں انگلش لینگویج اینڈ ٹیوشنز اکیڈمی کی بنیاد بھی  ڈالی،جس کی افتتاح بدست مبارک مردان کے مشہور سماجی و سیاسی شخصیت خواجہ محمد خان ہوتی عرف طوطی خان ہوئی اور انہوں نے ارشد خان صاحب کی قابلیت کو کافی سراہا۔  اس کے ارشد خان صاحب  "المسلم پبلک سکول مردان" میں ٹیچر رہے۔ اس کے بعد کابل یونیورسٹی میں لیکچرر شپ کے لئے ایپلائے کر نے چلے گئے لیکن وہاں کا ماحول کچھ بھایا نہیں اور پھر واپسی کی۔ واپس آنے پر  کچھ عرصہ صرف پریس/میڈیا کے ساتھ وابستہ رہے ،اس دوران آپ نے متعدد اخباروں اور ٹی وی چینلز کے لئے کام کیا جن میں روزنامہ اخبارِخیبر،روزنامہ آج صبح ، ایس بی این ٹی وی اور آج ٹی وی  شامل ہیں۔ اس کے بعد  آپ نے پھر سے   مردان کے کیڈٹ ٹیوزشنز کے حوالے سے مشہور ترین شخصیت اندریاس برکت مسیح کے زیر نگرانی چلنے والے سکول "سینٹ اینڈریوز سکول سسٹم"  میں ٹیچنگ جوائن کی،جہاں آپ کو ایندریاس صاحب نے "بیسٹ ٹیچر ایوارڈ" سے نوازا۔ اس بار ٹیچنگ کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم میں صحافتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں،اور اس دوران آپ  روزنامہ پختونخواہ نیوز ،ماہنامہ پختونخواہ ٹائم، اور روزنامہ اخبار خیبر  کے ساتھ منسلک رہے۔ذاتی کاروبار کی خواہش اور سینٹ اینڈریوز سکول انتظامیہ کی طرف سے اچھا سلوک نہ برتنے کی وجہ سے آپ نے سینٹ اینڈریوز سکول کو چھوڑا اور اپنے سکول کے دور کے ایک بہترین دوست شاہد احمد آف چمتار کے ساتھ اس کے انجن اوئل کے مارکیٹنگ اور ڈیسٹریبیوشن کے کاروبار میں شیئر ہولڈر بنے۔ یہ کام کرتے ہوئے محسوس کیا کہ فارغ وقت زیادہ بچتا ہے جس کو ضائع کرنے کی بجائے استعمال میں لانا چاہیئے،تو لہٰذا   پھر  مردان کے بہترین سکول  "اوریئنٹل پبلک سکول مردان" میں ٹیچنگ جوائن کی۔  پارٹ ٹائم میں ساتھ ساتھ ٹیوشنز اور صحافتی سرگرمیاں بھی پہلے کی طرح جاری رہیں۔اور اس بار پاکستان کے مشہور اخبار روزنامہ مشرق کے لئے کچھ کام کیا۔ ارشد خان آستِکؔ کو جتنا سائنس سے لگاو ہے،اتنا ہی ادب ،فنون یا آرٹس سے بھی لگاو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کا مطالعہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے ایک بہترین لکھاری اور شاعر بھی ہیں۔ اسی طرح استاد اور ٹیوٹر تو وہ پچپن سے ہی ہیں۔ اور صحافت تو ان کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہے۔ ارشد خان کا کہنا ہے کہ وہ اس پر اپنے پاک پروردگار کا جتنا بھی شکر ادا کرے،کچھ بھی نہیں ہوگا کہ وہ الحمد اللہ بیک وقت ایک استاد بھی ہیں،ایک ٹیوٹر(کیڈٹ کورسز،انگلش لینگویج اور اس کے علاوہ تمام نیچرل سائنسز یعنی فزکس،کمسٹری،بایولوجی اور میتھس  ایف ایس سی تک پڑھاتے ہیں) بھی ،ایک صحافی بھی اور ایک شاعر و لکھاری بھی ہیں۔  آپ  لا تعداد کالمز اور مضامین مختلف موضوعات پر لکھ چکے ہیں ۔  فی الوقت اپنی لکھی گئی  تین کتابوں کو ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ جن میں ایک اردو شاعری کی کتاب "عرق ِ روح" کے نام سے ہوگی،دوسری کتاب "آستِکیات" کے نام سے  سائنس ،فلسفہ اور مذاہب کے حوالے سے ہوگی،جبکہ تیسری کتاب "تجسس" کے نام سے متفرق موضوعات پر مشتمل ہوگی۔ان شا اللہ۔ 

No comments:

Post a Comment