تحریر ارشد خان آستک۔ اردو شاعر و کالم نگار
صادق خان کا ایک یہودی کے مقابلے میں جیت حاصل کرنے کی وجہ ظاہر سی بات ہے ان کا با عمل اور پختہ عقیدہ مسلمان نہ ہونا ہی ہے۔ جو باعمل ؛ پختہ عقیدے والے
؛ سچے یا پکے مسلمان ہوتے ہیں ان کا تو اپنے ہی ممالک کے اندر جینا حرام کردیا جاتا ہے؛ ان کا سبز پاسپورٹ تک باہر جاتے وقت ان کے لئے شرمندگی کے باعث بنتا ہے؛ تو لندن جیسے کثیر نصرانی اور یہودی آبادی پر مشتمل علاقے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے کسی مسلمان کو مئیر منتخب ہونے دیاجائے۔ صادق خان 2013 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کے حق
میں ووٹ دے چکا ہے جس وجہ سے کئی ایک علما نے ان پہ مرتد ہونے کے فتوے لگایئں۔ اس کے علاوہ کچھ ذرائع کے مطابق صادق خان مسلمانوں کے لئے شراب کا پینا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اتنا کچھ ہے تو پھر یقیناََ اس صاحب کی نظر میں زنا و بے پردگی بھی کوئی ناپسندیدہ اعمال نہیں ہونگے۔ یاد رکھیں یہود و نصرٰی کو اس قسم کے مسلمانوں سے قطعاً کوئی مسلہ نہیں ہے اور ایسے مسلمانوں کو ان کی طرف سے اکرامات سے نوازنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کو نوازا ہی اسی لئے جاتا ہے کہ یہ ہمارے تلوے چاٹنے سے کبھی منہ نہ موڑے بلکہ ان کو ملے ہوئے مراعات کو دیکھ کر دیگر مسلمان بھی لالچ کی وجہ سے ہمارے غلام بن جائیں۔ اپنےشہر میں اپنے یہودی پر اسےفوقیت دے کر جتوانا بھی انہی مراعات کا حصہ ہے۔ ایسے مسلمانوں کا ایمان for sale ہوتا ہے۔ جتنا معاوضہ و مراعات یہود کی طرف سے ملتے ہیں اس حساب سے یہ اپنی ایمان کا کوئی حصہ بدلےمیں انہیں بیچ ڈالتے ہیں۔ یہود و نصارٰی فری میں اتنا خاطر تواضح کسی کی نہیں بجا لاتے بدلے میں پھر کام بھی مانگتے ہیں۔اور ان کو یہ بھی پتا ہوتا ہے جیسا کہ انسانی فطرت ہے کہ جو بندہ کسی کے احسانات اپنے اوپر لے لیتا ہے اس کا پھر ضمیر بھی اسے اپنے محسن کی خواہشات اور منشاء کے خلاف چلنے نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے اعتماد کو کہیں ٹھیس نہ پہنچ جائے اس سلسلے میں وہ پرایا بندہ اپنے بندے سے زیادہ حساس ہوتا ہے جس پر احسانات برسائے گئے ہو۔ جیسا کہ مئیر منتخب ہونے کے بعد صادق خان صاحب کےالفاظ ہیں کہ وہ لندن کے یہودیوں کی ایک یہودی میئر کی نسبت کہیں زیادہ تعبدار رہے گا اور ان کی خدمت کرے گا کہ انہوں نے ایک یہودی کےمقابلے میں اسےسپورٹ کیا۔ایسے مسلمان اپنے یہودی آقاؤں کو خوش رکھنے کے لئےاعمال رزیلہ میں یہودیوں کو بھی پیچھے چھوڑنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے بارے میں علامہ اقبال صاحب کی نظم شکوہ جواب شکوہ میں بہت مناسب اشعار موجود ہیں جیسا کہ:
؛ سچے یا پکے مسلمان ہوتے ہیں ان کا تو اپنے ہی ممالک کے اندر جینا حرام کردیا جاتا ہے؛ ان کا سبز پاسپورٹ تک باہر جاتے وقت ان کے لئے شرمندگی کے باعث بنتا ہے؛ تو لندن جیسے کثیر نصرانی اور یہودی آبادی پر مشتمل علاقے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے کسی مسلمان کو مئیر منتخب ہونے دیاجائے۔ صادق خان 2013 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کے حق
میں ووٹ دے چکا ہے جس وجہ سے کئی ایک علما نے ان پہ مرتد ہونے کے فتوے لگایئں۔ اس کے علاوہ کچھ ذرائع کے مطابق صادق خان مسلمانوں کے لئے شراب کا پینا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اتنا کچھ ہے تو پھر یقیناََ اس صاحب کی نظر میں زنا و بے پردگی بھی کوئی ناپسندیدہ اعمال نہیں ہونگے۔ یاد رکھیں یہود و نصرٰی کو اس قسم کے مسلمانوں سے قطعاً کوئی مسلہ نہیں ہے اور ایسے مسلمانوں کو ان کی طرف سے اکرامات سے نوازنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کو نوازا ہی اسی لئے جاتا ہے کہ یہ ہمارے تلوے چاٹنے سے کبھی منہ نہ موڑے بلکہ ان کو ملے ہوئے مراعات کو دیکھ کر دیگر مسلمان بھی لالچ کی وجہ سے ہمارے غلام بن جائیں۔ اپنےشہر میں اپنے یہودی پر اسےفوقیت دے کر جتوانا بھی انہی مراعات کا حصہ ہے۔ ایسے مسلمانوں کا ایمان for sale ہوتا ہے۔ جتنا معاوضہ و مراعات یہود کی طرف سے ملتے ہیں اس حساب سے یہ اپنی ایمان کا کوئی حصہ بدلےمیں انہیں بیچ ڈالتے ہیں۔ یہود و نصارٰی فری میں اتنا خاطر تواضح کسی کی نہیں بجا لاتے بدلے میں پھر کام بھی مانگتے ہیں۔اور ان کو یہ بھی پتا ہوتا ہے جیسا کہ انسانی فطرت ہے کہ جو بندہ کسی کے احسانات اپنے اوپر لے لیتا ہے اس کا پھر ضمیر بھی اسے اپنے محسن کی خواہشات اور منشاء کے خلاف چلنے نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے اعتماد کو کہیں ٹھیس نہ پہنچ جائے اس سلسلے میں وہ پرایا بندہ اپنے بندے سے زیادہ حساس ہوتا ہے جس پر احسانات برسائے گئے ہو۔ جیسا کہ مئیر منتخب ہونے کے بعد صادق خان صاحب کےالفاظ ہیں کہ وہ لندن کے یہودیوں کی ایک یہودی میئر کی نسبت کہیں زیادہ تعبدار رہے گا اور ان کی خدمت کرے گا کہ انہوں نے ایک یہودی کےمقابلے میں اسےسپورٹ کیا۔ایسے مسلمان اپنے یہودی آقاؤں کو خوش رکھنے کے لئےاعمال رزیلہ میں یہودیوں کو بھی پیچھے چھوڑنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے بارے میں علامہ اقبال صاحب کی نظم شکوہ جواب شکوہ میں بہت مناسب اشعار موجود ہیں جیسا کہ:
وضع میں تم ہو نصٰرٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
ہونکہ نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
اسی طرح مزید فرماتے ہیں
نہیں آتا جنہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
اس لئے پاکستانی مسلمانوں ؛ خاص کر جے یو آئی والوں جو اس وجہ سے صادق خان کی جیت پہ کچھ زیادہ ہی ایکسائٹڈ ہیں کہ یہ عمران مخالف پارٹی کا بندہ تھا؛ آپ لوگوں کو زیادہ جزباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ صادق خان نے کوئی امیرالموءمنین نہیں بننا نہ ہی وہ لندن میں کوئی اسلام نافذ کرنے یا لندن کو اسلامی سلطنت بنانے جا رہا ہے۔ یہودو نصٰرٰی کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں کہ کسی سچے اور پکے مسلمان کو وہ میئر منتخب کریں گے۔ جہاں پر ہماری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے ان کی سوچ شروع ہوتی ہے۔ ایسے عہدوں سے وہ جن کو نوازتے ہیں تو ان کے بیک گراؤنڈ کی اچھی چھان بین انہوں نے کی ہوتی ہے۔ اوبامہ کے امریکی صدر منتخب ہونے پر بھی سادہ لوح مسلمان اس لئے بنگڑے ڈال رہے تھے کہ اوبامہ ایک مسلمان شخص کا بیٹا ہے یا بعض تھیوریز کے مطابق اوبامہ کا پورا نام بھی "براک حسین اوباما" ہے؛ جس سے ان کا شیعہ مسلمان ہونا ظاہر ہوتا ہے ؛ تو ان وجوہات کی لاج رکھتے ہوئے اوبامہ صاحب عالم اسلام کی کچھ خدمت کر لے گا اور بش نے جو زخم عالم اسلام کو پہنچائے ہیں ان کے لئے دوا بن جائے گا۔اب آج تک اوباما نے عالم اسلام کی جتنی خدمت کی وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر بش سے ایک درجہ بڑھ کر اس نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچایا ہو تو کم تو بالکل بھی نہیں ہوگا۔اللہ کی بات جھوٹ نہیں ہوسکتی؛ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے کلام پاک میں واضح کیا ہے کہ یہ یہودو نصارٰی تم سے اس وقت تک خوش نہیں ہونگے جب تک تم ان کے لئے اپنایہ دین نہ چھوڑو۔ یہاں پہ دین کو ترک کرنے کے دونوں ہی مطلب ہوئے یعنی دین کو کُل یک مشت ترک کرنایا دین کو حصوں حصوں میں ترک کرناجب جب جس جس حصے کا ترک کرنا موقع و محل کے لحاظ سے یہودیوں کے لئے اہم ہو۔۔ جس طرح ہمارے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نا مناسب خاکے شائع کرکے گستاخی کرنے والے میگزین "چارلی ہیبڈو" کے دفتر پر حملہ کے دوران دو غیر مسلم خواتین کی جان بچانے کے بعد ہی فرانسیسی حکومت نے فرانس کی شہریت حاصل کرنے کے لئے سر توڑ کوشش میں لگے الجیریا کے ایک مسلمان باشندے "سیفر کیسا نوسترا" کو فرانس کی شہریت سے نوازا؛ (واضح رہے کہ میں اس قسم کا کوئی تاثر دلانے کی ہرگز کوشش نہیں کر رہا کہ کسی کافر کی جان بچانا گناہ ہے؛لیکن کسی گستاخ رسول ص کی جان بچانا یقیناً گناہ ہے؛اب یہ خواتین گستاخی کرنے والی ٹیم کا حصہ تھیں یا نہیں یہ علم اللہ کو ہی ہوگا۔یہاں پر میں نے اس واقعہ کا ذکر صرف ایک ایسے اقدام کے طور پر کیا جس سے یہود و نصٰرٰی خوش ہوئے ہوں) بالکل اسی قسم کی کہانیاں ہر ایک نوازے گئے مسلمان بندے کی پشت پہ ہوتی ہیں؛ کہ یا تو انہوں نے یہود ونصارٰی کی اپنے مذہب و عقیدے کو خاطر میں لائے بغیر کچھ خدمتیں کی ہوتی ہیں یا کرنے کا ہر ممکن یقین دلایا ہوتا ہے۔۔۔ یا با لفاظ دیگر وفادار کتے کی طرح اپنی وفاداری کا ہر ممکن یقین دلایا ہوتا ہے انہوں نے یہود ونصارٰی کو۔۔۔۔ویسے ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ عمران نے تو زیک گولڈ سمتھ کی حمایت اس لئے کی تھی کہ اس کا سالہ ہے یا تھا کسی دور میں ؛ لیکن فضل الرحمانیوں کی طرف سے ہم جنس پرستی و دیگر اعمال رزیلہ کے حمایتی جس کا ایمان صرف for sale ہے؛ اس کی حمایت کیوں کی جارہی ہے ؟ کہیں یہ بھی فضل الرحمانیوں کا کوئی رشتہ دار ہے؟ یاحمایت اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ اس میں اور فضل الرحمان میں دینداری for sale کی خاصیت مشترک ہے؟ :-)
تحریر:
ارشد خان آستک؛اردر شاعر و کالم نگار
No comments:
Post a Comment