’’سائنس ،الحاد(دہریت) اور مذہبِ اسلام‘‘
تحریر: ارشد خان آستِکؔ ( لیدبیرؔ) (اردو شاعر و کالم نگار اخبارِخیبر)
نیم ملا دوسروں کی ایمان کے لئے تو خطرہ ہوتا ہی ہے مگر دوسروں کا ایمان بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے ایمان کو بھی ظاہر سی بات ہے کہ خطرہ لاحق ہوتاہے۔ہمارے موضوع کے مطابق یہ ضرب المثل ہمارے لئے اردو کے ان الفاظ کی نسبت انگریزی والے الفاظ میں زیادہ با معنی ہے کہ
"A little knowledge is a dangerous thing"
یعنی ’’تھوڑا علم خطرناک چیز ہے‘‘ ۔ مطلب یہ ہوا کہ
کسی بھی معاملے کے بارے میں علم حاصل کرنا ہے تو مکمل طور پہ کیا کریں،نا مکمل علم ،فائدہ دینے کی بجائے نقصان دیتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذاہبِ عالم میں سائنس سے سب سے زیادہ مطابقت رکھنے والامذہب اسلام ہی ہے،لیکن پھر بھی سائنس ہی کا مطالعہ بعض لوگوں کو اسلام سے دور لے جاتا ہے اور چونکہ اسلام سے بہتر تو کوئی دوسرا دین ہے ہی نہیں تو پھر ایسے لوگ ملحد بن جاتے ہیں۔ عالمی سرویز کے مطابق ایسا مذہب جسے بہت کم لوگ چھوڑ کر دوسرے مذاہب اپناتے ہیں وہ بھی اسلام ہے۔ جو بھی اسلام چھوڑتا ہے وہ بجائے دوسرا مذہب اپنانے کے اکثر ملحد ہی بن جاتا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مذاہب میں سے بہترین مذہب اسلام ہی ہے۔ملحد سارے وہی لوگ ہوتے ہیں جو سائنس کے سر سری مطالعے کر کے سمجھتے ہیں کہ گویا انہو ں نے سائنس کو سمجھ لیا۔ حا لانکہ کسی بھی علم اور پھر خصوصاََسائنس جیسے وسیع ترین علم کو سمجھنے کے لئے سرسری مطالعہ قطعاََ کافی نہیں ہوتا۔سر سری مطالعہ کرنے والے کو یہ سوچنا چاہیئے کہ اس کے پاس سائنس کی کونسی ڈگری ہے؟ جس چیز کو کوئی اپنے یقین کی بنیاد بنا رہا ہو،ہونا چاہئیے کہ اس میں کم سے کم اس نے ماسٹرز لیول تک تو پڑھا ہو ناں! گہرا مطالعہ ہو،نہ کہ اس کی سنی سنائی باتیں کاپی پیسٹ کیا کرے۔ میں نے اکثر ملحدوں کو دیکھا ہے جو سائنس سائنس کرتے ہیں اور حقیقت ان کی یہ ہوتی ہے کہ خود صرف میٹرک تک یا زیادہ سے زیادہ ایف ایس سی تک ہی سائنس پڑھا ہوتا ہے انہوں نے۔ ماسٹرز ا کے لیول پر انہوں نے اور مضامین میں پڑھے ہوتے ہیں۔ اکثر ا نہوں نے فلسفہ پڑھا ہوتا ہے ،کچھ نے فائن آرٹس پڑھا ہوتاہے۔ اب فلسفہ یا فائن آرٹس اور سائنس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔فائن آرٹس تو مکمل طور پہ ہی الگ چیز ہے البتہ بعض لوگ فلسفہ کو سائنس سے تھوڑا بہت جڑا ہوا سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ فلسفہ انسان کی ذاتی ذہنی تخلیقات ہوتے ہیں ، جو کہ صرف اس انسان تک ہی محدود ہوتے ہیں ،جبکہ سائنس ایسے مشاہدات و تجربات کا علم ہے جس کے قوانین آپ کائنات میں کہیں پر بھی ثابت کر سکتے ہیں۔فلسفہ محض نظریات ہوتے ہیں جبکہ سائنس میں محض نظریات کافی نہیں سمجھے جاتے بلکہ سائنس نظریات کے ساتھ ساتھ عملیات کا بھی علم ہے۔ علم ِفلسفہ کا موادمعاشرے کے بارے میں ،معاشیات کے بارے میں،سیاسیات کے بارے میں،لوگوں کی طرزِ زندگی اور ذاتی اعمال کے بارے میں ہوتا ہے،جبکہ علم ِ سائنس کا مواد Nature of Matter,materials and universeکے بارے میں ہوتا ہے۔ فلسفیانہ نظریات جانبداری کے محتاج بھی ہوسکتے ہیں جبکہ سائنس ایک غیر جانبدار علم ہے۔ وہ پرانے لوگ ہوتے تھے جو ہر فنِ مولا ہوتے تھے اور فلسفہ اور سائنس کے بیک وقت ماہر ہوا کرتے تھے۔ اب ہر فلسفہ پڑھنے والا تو ارسطویا سقراط وغیرہ تو نہیں ہوسکتاجو فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک سائنسدان بھی ہوا کرتے تھے۔ اور ان حضرات کے نظریات پہ بھی فلسفے کا تھوڑا بہت اثر ہونے کی وجہ سے بھی تقریباََ ان کے سارے کے سارے نظریات کو سائنس رد کرچکا ہے۔پس سائنس کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لئے ہونا چایئے کہ سائنس آپ کا اپنا مضمون ہو ماسٹرز کے لیول پریا پھر اتنا مطالعہ آپ نے کیا ہو سائنس کا جتنا کوئی ایم ایس سی کرنے کے لئے کرتا ہے۔ اخباروں اور رسالوں میں صرف سائنسی ایجادات کی خبریں اور معلومات پڑھنے سے سائنس سیکھا نہیں جاسکتا۔ بے شک سائنسدانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہونگے جو سائنس کا گہرا مطالعہ رکھنے کے باوجود ملحد ہونگے مگر ایسے لوگوں کا تناسب کم ہے بنسبت ان لوگوں کے جو سائنس کا سرسری مطالعہ کرنے کی وجہ سے ملحد بن چکے ہو۔ اب آتے ہیں سائنس کے تفصیلی تعارف کی طرف۔ سائنس کسی اٹل حقیقت کا نام ہر گز نہیں اور نہ ہی سائنس اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہاہے ےہ حقیقت ہے اور اس کی کی ہوئی بات پتھر پہ لکیر ہے۔ ےہ محض جاہل لوگوں کی سوچ ہے۔ سائنس جس دن ایسا کہنے لگے اسی دن سائنسی ترقی رک جائے گی۔ سائنس تو ترقی ہی اس لئے کر رہا ہے کہ اپنے باتوں پہ یہ شک کر رہا ہے،ایک سائنسدان دوسرے کی بات پہ شک کرتا ہے،اس کو فائنل نہ مان کر اپنی ریسرچ جاری رکھتا ہے۔ پس اگر یہی سائنس کی ترقی کی وجہ بن رہی ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ سائنس خود یہ درس دیتا ہے کہ اس کی باتوں کو یقینی اور فائنل نہ مانی جائے۔ سائنس کی تعریف ہے ’’وہ علم جو انسانی مشاہدات اور تجربات کے نتیجے میں حاصل ہو جائے‘‘۔ اب انسانی مشاہدات اور تجربات حالات کے حساب سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مناسب آلات کی کمی ،آلات کے استعمال میں مہارت کی کمی،مشاہدہ اور تجربہ کرنے والے کی بشری کمزوری کی وجہ سے غلطی،ےہ سارے فیکٹرز اور اس قسم کے اور بھی بہت فیکٹرز اثر انداز ہوتے ہیں تجربات اور مشاہدات پر،جس کا احساس اسی وقت تو نہیں ہوتا لیکن کچھ عرصہ بعد نئی تحقیق کا آکر پرانی والی کو ریجکٹ کرنے کی صورت میں نقص سامنے آجاتا ہے۔ انسان کامل تو نہیں ہے۔پس اس وجہ سے اس کے مشاہدات و تجربات بھی کامل نہیں ہو سکتے اور ےہ وقتاََ فوقتاََ ایک ریسرچ کا دوسرے کو ریجیکٹ کرنے کی صورت میں ثابت ہوتا رہا ہے۔ مزید یہ کہ سائنس ایک منظم،سٹپ وائس علم ہے۔ سائنسی مواد کو ان سٹپس میں تقسیم کیا گیا ہے 1.Observation 2.Hypothesis 3.Experiments 4.Conclusion 5.Theory 6.Law 7.Principle یہ سات چیزیں ساری کی ساری سائنسی تعلیمات کا حصہ ہیں اور سائنس کہلاتی ہیں۔ لیکن ان میں سے درست صرف اور صرف آخری دو کو مانا جاتا ہے،Law اور Pronciple۔ ملحد سائنس کی جو باتیں زور و شور سے بیان کرتے رہتے ہیں وہ عموماََ Observationیا Hypothesisیا زیادہ سے زیادہ پھر Theory تک آجاتے ہیں۔ اور سائنس کے مطابق ان تین Categoriesوالی باتیں غیر یقینی اور غیر فائنل ہوتی ہیں۔ Law اور Proncipleپہ بھی شک کیا جاسکتا ہے جیسا کہ عرض کیا کہ سائنس علم ہی اپنی باتوں پہ شک کرنے کا ہے،پس شک ان دو Categories پہ بھی ہوتا ہے مگر ان باقی کی نسبت ان کے درست ہونے کے 95%چانسز ہوتے ہیں۔۔ سائنس مشاہدات اور تجربات کا علم ہے اور مشاہدات و تجربات میں انہی چیزوں کو لایا جا سکتا ہے جو ہمارے سامنے موجود ہو،جن تک ہماری رسائی ہو۔ جو چیزیں سامنے موجود نہ ہو یا ہماری ان تک رسائی نہ ہو ایسی چیزوں کے بارے میں ہم محض اندازے یا مفروضے یعنی Hypothesisہی قائم کرسکتے ہیں جو کہ 100%ممکن ہے کہ غلط ہو۔ تخلیق کائنات ،زندگی کی ابتداء اور زمین کے باہر کائنات کا حصہ ایسی ہی موضوعات ہیں جن کو ہم تسلی بخش طور پر کو اپنے مشاہدات و تجربات کے دائرے میں ان معاملات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں لا سکتے۔ پس ان معاملات کے حوالے سے سائنس کا ایک بڑا حصہ اندازوں،مفروضوں،افسانوں یعنی Hypothesisپہ مشتمل ہے۔پس سائنس میں غلط باتوں کا بہت بڑا گنجائش موجود ہے۔ اندھے یقین کے مسلے میں مذہبی لوگ اور ملحد ایک جیسے ہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مذہب کی باتوں پہ اندھا یقین رکھتے ہیں اور ملحد سائنس کی باتوں پہ۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سائنسی علم میں LawاورPrincipleکے علاوہ
کسی بھی معاملے کے بارے میں علم حاصل کرنا ہے تو مکمل طور پہ کیا کریں،نا مکمل علم ،فائدہ دینے کی بجائے نقصان دیتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذاہبِ عالم میں سائنس سے سب سے زیادہ مطابقت رکھنے والامذہب اسلام ہی ہے،لیکن پھر بھی سائنس ہی کا مطالعہ بعض لوگوں کو اسلام سے دور لے جاتا ہے اور چونکہ اسلام سے بہتر تو کوئی دوسرا دین ہے ہی نہیں تو پھر ایسے لوگ ملحد بن جاتے ہیں۔ عالمی سرویز کے مطابق ایسا مذہب جسے بہت کم لوگ چھوڑ کر دوسرے مذاہب اپناتے ہیں وہ بھی اسلام ہے۔ جو بھی اسلام چھوڑتا ہے وہ بجائے دوسرا مذہب اپنانے کے اکثر ملحد ہی بن جاتا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مذاہب میں سے بہترین مذہب اسلام ہی ہے۔ملحد سارے وہی لوگ ہوتے ہیں جو سائنس کے سر سری مطالعے کر کے سمجھتے ہیں کہ گویا انہو ں نے سائنس کو سمجھ لیا۔ حا لانکہ کسی بھی علم اور پھر خصوصاََسائنس جیسے وسیع ترین علم کو سمجھنے کے لئے سرسری مطالعہ قطعاََ کافی نہیں ہوتا۔سر سری مطالعہ کرنے والے کو یہ سوچنا چاہیئے کہ اس کے پاس سائنس کی کونسی ڈگری ہے؟ جس چیز کو کوئی اپنے یقین کی بنیاد بنا رہا ہو،ہونا چاہئیے کہ اس میں کم سے کم اس نے ماسٹرز لیول تک تو پڑھا ہو ناں! گہرا مطالعہ ہو،نہ کہ اس کی سنی سنائی باتیں کاپی پیسٹ کیا کرے۔ میں نے اکثر ملحدوں کو دیکھا ہے جو سائنس سائنس کرتے ہیں اور حقیقت ان کی یہ ہوتی ہے کہ خود صرف میٹرک تک یا زیادہ سے زیادہ ایف ایس سی تک ہی سائنس پڑھا ہوتا ہے انہوں نے۔ ماسٹرز ا کے لیول پر انہوں نے اور مضامین میں پڑھے ہوتے ہیں۔ اکثر ا نہوں نے فلسفہ پڑھا ہوتا ہے ،کچھ نے فائن آرٹس پڑھا ہوتاہے۔ اب فلسفہ یا فائن آرٹس اور سائنس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔فائن آرٹس تو مکمل طور پہ ہی الگ چیز ہے البتہ بعض لوگ فلسفہ کو سائنس سے تھوڑا بہت جڑا ہوا سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ فلسفہ انسان کی ذاتی ذہنی تخلیقات ہوتے ہیں ، جو کہ صرف اس انسان تک ہی محدود ہوتے ہیں ،جبکہ سائنس ایسے مشاہدات و تجربات کا علم ہے جس کے قوانین آپ کائنات میں کہیں پر بھی ثابت کر سکتے ہیں۔فلسفہ محض نظریات ہوتے ہیں جبکہ سائنس میں محض نظریات کافی نہیں سمجھے جاتے بلکہ سائنس نظریات کے ساتھ ساتھ عملیات کا بھی علم ہے۔ علم ِفلسفہ کا موادمعاشرے کے بارے میں ،معاشیات کے بارے میں،سیاسیات کے بارے میں،لوگوں کی طرزِ زندگی اور ذاتی اعمال کے بارے میں ہوتا ہے،جبکہ علم ِ سائنس کا مواد Nature of Matter,materials and universeکے بارے میں ہوتا ہے۔ فلسفیانہ نظریات جانبداری کے محتاج بھی ہوسکتے ہیں جبکہ سائنس ایک غیر جانبدار علم ہے۔ وہ پرانے لوگ ہوتے تھے جو ہر فنِ مولا ہوتے تھے اور فلسفہ اور سائنس کے بیک وقت ماہر ہوا کرتے تھے۔ اب ہر فلسفہ پڑھنے والا تو ارسطویا سقراط وغیرہ تو نہیں ہوسکتاجو فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک سائنسدان بھی ہوا کرتے تھے۔ اور ان حضرات کے نظریات پہ بھی فلسفے کا تھوڑا بہت اثر ہونے کی وجہ سے بھی تقریباََ ان کے سارے کے سارے نظریات کو سائنس رد کرچکا ہے۔پس سائنس کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لئے ہونا چایئے کہ سائنس آپ کا اپنا مضمون ہو ماسٹرز کے لیول پریا پھر اتنا مطالعہ آپ نے کیا ہو سائنس کا جتنا کوئی ایم ایس سی کرنے کے لئے کرتا ہے۔ اخباروں اور رسالوں میں صرف سائنسی ایجادات کی خبریں اور معلومات پڑھنے سے سائنس سیکھا نہیں جاسکتا۔ بے شک سائنسدانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہونگے جو سائنس کا گہرا مطالعہ رکھنے کے باوجود ملحد ہونگے مگر ایسے لوگوں کا تناسب کم ہے بنسبت ان لوگوں کے جو سائنس کا سرسری مطالعہ کرنے کی وجہ سے ملحد بن چکے ہو۔ اب آتے ہیں سائنس کے تفصیلی تعارف کی طرف۔ سائنس کسی اٹل حقیقت کا نام ہر گز نہیں اور نہ ہی سائنس اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہاہے ےہ حقیقت ہے اور اس کی کی ہوئی بات پتھر پہ لکیر ہے۔ ےہ محض جاہل لوگوں کی سوچ ہے۔ سائنس جس دن ایسا کہنے لگے اسی دن سائنسی ترقی رک جائے گی۔ سائنس تو ترقی ہی اس لئے کر رہا ہے کہ اپنے باتوں پہ یہ شک کر رہا ہے،ایک سائنسدان دوسرے کی بات پہ شک کرتا ہے،اس کو فائنل نہ مان کر اپنی ریسرچ جاری رکھتا ہے۔ پس اگر یہی سائنس کی ترقی کی وجہ بن رہی ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ سائنس خود یہ درس دیتا ہے کہ اس کی باتوں کو یقینی اور فائنل نہ مانی جائے۔ سائنس کی تعریف ہے ’’وہ علم جو انسانی مشاہدات اور تجربات کے نتیجے میں حاصل ہو جائے‘‘۔ اب انسانی مشاہدات اور تجربات حالات کے حساب سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مناسب آلات کی کمی ،آلات کے استعمال میں مہارت کی کمی،مشاہدہ اور تجربہ کرنے والے کی بشری کمزوری کی وجہ سے غلطی،ےہ سارے فیکٹرز اور اس قسم کے اور بھی بہت فیکٹرز اثر انداز ہوتے ہیں تجربات اور مشاہدات پر،جس کا احساس اسی وقت تو نہیں ہوتا لیکن کچھ عرصہ بعد نئی تحقیق کا آکر پرانی والی کو ریجکٹ کرنے کی صورت میں نقص سامنے آجاتا ہے۔ انسان کامل تو نہیں ہے۔پس اس وجہ سے اس کے مشاہدات و تجربات بھی کامل نہیں ہو سکتے اور ےہ وقتاََ فوقتاََ ایک ریسرچ کا دوسرے کو ریجیکٹ کرنے کی صورت میں ثابت ہوتا رہا ہے۔ مزید یہ کہ سائنس ایک منظم،سٹپ وائس علم ہے۔ سائنسی مواد کو ان سٹپس میں تقسیم کیا گیا ہے 1.Observation 2.Hypothesis 3.Experiments 4.Conclusion 5.Theory 6.Law 7.Principle یہ سات چیزیں ساری کی ساری سائنسی تعلیمات کا حصہ ہیں اور سائنس کہلاتی ہیں۔ لیکن ان میں سے درست صرف اور صرف آخری دو کو مانا جاتا ہے،Law اور Pronciple۔ ملحد سائنس کی جو باتیں زور و شور سے بیان کرتے رہتے ہیں وہ عموماََ Observationیا Hypothesisیا زیادہ سے زیادہ پھر Theory تک آجاتے ہیں۔ اور سائنس کے مطابق ان تین Categoriesوالی باتیں غیر یقینی اور غیر فائنل ہوتی ہیں۔ Law اور Proncipleپہ بھی شک کیا جاسکتا ہے جیسا کہ عرض کیا کہ سائنس علم ہی اپنی باتوں پہ شک کرنے کا ہے،پس شک ان دو Categories پہ بھی ہوتا ہے مگر ان باقی کی نسبت ان کے درست ہونے کے 95%چانسز ہوتے ہیں۔۔ سائنس مشاہدات اور تجربات کا علم ہے اور مشاہدات و تجربات میں انہی چیزوں کو لایا جا سکتا ہے جو ہمارے سامنے موجود ہو،جن تک ہماری رسائی ہو۔ جو چیزیں سامنے موجود نہ ہو یا ہماری ان تک رسائی نہ ہو ایسی چیزوں کے بارے میں ہم محض اندازے یا مفروضے یعنی Hypothesisہی قائم کرسکتے ہیں جو کہ 100%ممکن ہے کہ غلط ہو۔ تخلیق کائنات ،زندگی کی ابتداء اور زمین کے باہر کائنات کا حصہ ایسی ہی موضوعات ہیں جن کو ہم تسلی بخش طور پر کو اپنے مشاہدات و تجربات کے دائرے میں ان معاملات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں لا سکتے۔ پس ان معاملات کے حوالے سے سائنس کا ایک بڑا حصہ اندازوں،مفروضوں،افسانوں یعنی Hypothesisپہ مشتمل ہے۔پس سائنس میں غلط باتوں کا بہت بڑا گنجائش موجود ہے۔ اندھے یقین کے مسلے میں مذہبی لوگ اور ملحد ایک جیسے ہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مذہب کی باتوں پہ اندھا یقین رکھتے ہیں اور ملحد سائنس کی باتوں پہ۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سائنسی علم میں LawاورPrincipleکے علاوہ
Observation,Hypothesis and Theoryنام کی چیزوں کا مواد بھی شامل ہوتا ہے۔ اور سائنس کا اپنا اصول ہی اپنے باتوں پہ شک کرنا ہے۔تو ایسے میں اگر کوئی بندہ سائنس کی بات کو حرفِ آخر،پتھر پہ لکیر اور فائنل سمجھا کرے تو یقینا یہ انسان بیوقوف اور سائنس کا اندھا عاشق ہی ہوسکتا ہے۔ ایسے شخص کو دوسروں کو اندھے یقین کا قصوروار ٹھہرانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ سائنس کا مذہبِ اسلام سے مخالفت رکھنے والا حصہ بھی زیادہ تر یہیObservation,Hypothesis یا پھر زیادہ سے زیادہ Theory پر مشتمل حصہ ہے۔ لیکن اگر اختلاف سائنس کے LawاورPrincipleوالے حصے کے ساتھ بھی آگیاپھر بھی تعجب کی بات اس وجہ سے نہیں کہ جیسا کہ میں عرض کرچکا کہ LawاورPrinciple پہ بھی شک ممکن ہے چونکہ سائنس ایک Progressiveیعنی ترقی پذیر علم ہے اور یہ ہر وقت Under Process رہتا ہے۔ اس کی کوئی بات پتھر پر لکیر نہیں ہوتی۔ بحر حال پھر بھی مذہب اور سائنس ایک نہیں ہو سکتے۔ اختلاف ہر دور میں ان کے درمیان کچھ نہ کچھ اس وجہ سے بھی رہے گا کہ اسلام کا ایک بڑا حصہ ’’ایمان ِ بالغیب ‘‘ پر مشتمل ہے۔ ’’ایمان ِ بالغیب‘‘ میں شامل چیزیں کبھی بھی انسان پہ ساری کی ساری عیاں نہیں ہوسکتیں،اگر ایسا ہوگیا تو پھر تو امتحان ہی ختم۔ پھر تو ساری دنیا اسلام قبول کرلے گی۔ تو لہٰذا ہم مسلمانوں کو سائنس سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئےے کہ یہ اسلام کی ہر بات کی تصدیق کرے گا۔ اسی طرح ملحدوں کو بھی اپنے نظریات Promotکرنے کے لئے سائنس کو بیچ میں نہیں گھسیٹنا چاہئےے۔سائنس کی کسی بھی کتاب میں Athiesmکا کوئی Chapterموجود نہیں ہے۔ سائنس اگر مذہب کی طرفداری کرنے کا علم نہیں ہے تو مذہب کو مٹانا بھی اس کا مشن نہیں ہے۔سائنس کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کوئی ملحد بنے۔خواہ مخواہ ملحدوں نے سائنس کو اپنا مذہب بنایا ہوا ہے اور مذاہب کا نعم البدل سمجھا ہوا ہے،حا لانکہ سائنس کبھی مذہب کا نعم البدل اس لئے نہیں ہوسکتا کہ دونوں کے مقاصد ہی جدا ہیں،سائنس کا مقصد محض انسان کو اپنے فائدے کے لئے مادی اشیاء کا بہتر سے بہتر استعمال سکھانا ہے،جبکہ مذہب کا تعلق معاملاتِ بعد از مرگ،معاملاتِ اخلاق اور حقوق العباد سے ہے۔ سائنس کی کتابوں میں ان موضوعات پر کوئی Chapterموجود نہیں ہے۔ اچھا اب جہاں پر کسی اسلامی بات کا سائنس سے اختلاف ہو تو ہم مسلمانوں کوکیا کرنا چاہیئے؟ تو پہلے تو اس بات کی صحیح تحقیق کرنی چاہئےے کہ آیا واقعی یہ قرآن و حدیث میں واضح طور پر ہی بیان کی گئی بات ہے یا کسی عالم نے ذاتی سوچ کی بنا پر کسی آیت یا حدیث کی تاویل نکالی ہے۔ تحقیق کے نتیجے میں اگر یہ بات سامنے آئی کہ اختلاف واقعی موجود ہے تو بھی تعجب کی ضرورت اول تو اس وجہ سے نہیں کہ جیسا کہ میں نے بتا دیا کہ سائنس ایک ترقی پذیر علم ہے،اس کی کوئی بات پتھر پہ لکیر نہیں ہوتی۔ دوسری اس وجہ سے نہیں کہ سائنس کا علم ہم دو چیزوں کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ۱)ہمارے حواس، ۲) ہماری عقل
اب جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ انسان کمزور ہے،ہمارے مشاہدات اور تجربات میں کمی ہوسکتی ہے۔ہمارے حواس کی طاقت محدود ہے۔ بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن کا ادراک ہم اپنے حواس کے ذریعے نہیں لگا سکتے ،اب اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ چیز یں وجود ہی نہیں رکھتیں۔ انسان جسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے کائنات کا طاقتور ترین مخلوق نہیں ہے،اس سے بہت سارے طاقتور مخلوقات موجود ہیں۔ہر مخلوق کی جسمانی صلاحیت کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے،اور کوئی چیز اگر اس حد سے باہر ہو تو اس چیز کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح انسان کے جسمانی صلاحیتوں کے بھی حدود ہیں ۔ جس طرح ہماری سماعت کی صلاحیت ہے کہ ہم 20Hzسے لے کر20KHzکے درمیان فریکوینسی رکھنے والی آوازہی سن سکتے ہیں،اس رینج سے کم یا زیادہ فریکوینسی رکھنے والی InfrasoundsاورUltrasoundsآوازیں اگرچہ موجود رہتی ہیں لیکن ہمیں ادراک نہیں ہوتا۔وھیل مچھلی(Whale fish) اورہاتھی ،Infrasounds سن سکتے ہیں،جبکہ بلی اور چمگاڈر(Bats)،Ultrasoundsسن سکتے ہیں۔اسی طرح ہماری بصارت کی صلاحیت کی بھی ایک حد ہے۔700nmسے لے کر400nmکے درمیان wavelengthرکھنے والی روشنی کو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں،اس سے کم یازیادہ wavelenghtsرکھنے والی InfraredاورUltravioletشعائیں اگرچہ موجود ہوتی ہیں مگر ہم نہیں دیکھ پاتے۔جبکہ سانپInfrared اورمکڑی اور کبوتر Ultravioletشعائیں دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح سائز میں حد سے زیادہ چھوٹی چیزیں مثلاََ وائرس،بیکٹیریا،ایٹم،مالیکیول وغیرہ اگرچہ موجود ہوتے ہیں مگر ہم ان کو Naked Eyeسے نہیں دیکھ پاتے۔ غرض ہمارے تمام Senses of observation کی صلاحیتیں محدود ہیں ،یہاں تک کہ کچھ جانور بھی ہم سے اس میں آگے ہیں۔تو ایسے میں ضروری نہیں کہ ہم اگر کسی شے کو نہ دیکھ سکے،نہ سن سکے،نہ چھو سکے تو اس کا وجود ہی نہیں ہوگا۔ایسا اگر ہوتا تو پھر تو InfrasoundsاورUltrasoundsآوازیں ، InfraredاورUltravioletشعائیں، وائرس،بیکٹیریا،ایٹم،مالیکیول وغیرہ مو جود نہ ہوتے۔ انسانی ذہن کتنا ہی پختا کیوں نہ ہو جائے مگر پھر بھی اس میں آنکھوں اور کانوں سے سوچنے کی جا ہلانہ عادت ضرور رہے گی۔ہم میں سے اکثر لوگ آنکھوں اور کانوں سے سوچتے ہیں۔ دماغ برائے نام پڑا ہوتا ہے ہمارے پاس۔ہمیں جو کچھ دکھائی دے،جو کچھ سنائی دے،اس پہ تو ایمان لے آتے ہیں،لیکن جو چیز دکھائی اور سنائی نہ دے،اس پر یقین نہیں کرتے چاہے ہمارا ذہن اسے لاکھ تسلیم کرتا پھرے۔ اور پھر اگر کسی شے کے وجود کو ہمارا ذہن بھی تسلیم نہ کرے پھر بھی اس شے کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صرف Senses of observation کی صلاحیتیں ہی نہیں بلکہ ہمارے کام کرنے کی صلاحیت مشینوں کے مقابلے میں،ہمارا کھانا پینا،ہماری جوانی،ہماری عمر،غرض ہماری ہر صلاحیت محدود ہے۔ تو جب ہماری ہرایک صلاحیت محدود ہے تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری ذہنی صلاحیت،یعنی سوچنے کی صلاحیت بھی محدود ہو۔ پس یہ بھی پھر ممکن ہے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہو جن کے وجود کی وضاحت کرنے سے ہماری ذہنی صلاحیت قاصر ہو۔ انسان کے پاس اس بات کی کیا سند یا سرٹیفیکیٹ یا اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس کا ذہن کائنات کے ہر راز کو فاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ پس ضروری نہیں کہ کوئی شے اگر انسان کے حواس کے مشاہدوں میں محسوس نہ ہوتی ہو یا اس کا ذہن اس شے کو تسلیم نہ کر پا رہا ہو تو وہ شے وجود ہی نہیں رکھتا ہوگا۔ تو ان تمام باتوں پر اگر انسان اسی طرح سائنسی انداز میں غور کرے تو خدا،فرشتوں اور جنات کے وجود کا ہونا اس کے لئے قطعی طور پہ کوئی تعجب کی بات نہیں رہے گی۔سائنس چونکہ کائنات کا مطالعہ کرنے کا نام ہے۔تو اصولاََ تو یہ ہونا چاہیئے تھاکہ اس مطالعہ سے انسان خدا کے علم،قدرت،اور حکمت سے مزید آشنا ہو کر اس کے دل میں اس کی مزید عظمت بیٹھتی۔ سائنس کا مطالعہ کر کے خدا سے دور ہونے کی مثال بالکل ایسی ہے کہ فرض کر ایک گاڑی ہے۔ آپ گاڑی کے مکینیک نہیں ہیں تو آپ گاڑی کے خالق کو مانتے ہیں کہ یہ کسی کمپنی نے بنائی ہوئی ہے۔ اب فرض کر آپ نے گاڑی کا مکینیک بننے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں محنت شروع کی اور کئی سال بعد آپ پکے مکینیک بن کر گاڑی کے پرزے پرزے سے واقف ہوگئے۔ تو اب کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ گاڑی کا کوئی خالق نہ رہا؟ اس گاڑی کا خالق تو اب بھی وہی کمپنی ہے۔ آپ کا گاڑی کے جسم کو سمجھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے سے اس کے خالق کی حیثیت پہ تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اس کا یہ ہر گز مطلب نہ ہوگا کہ اب اس کا کوئی خالق نہیں رہا۔ بجائے ایسا سوچنے کے،ہونا یہ چاہیئے کہ عام آدمی کی نسبت آپ اس کے خالق کو زیادہ داد دیا کریں کیونکہ جہاں جہاں آپ اس گاڑی کے پرزے پرزے سے واقف ہو گئے ہیں وہاں وہاں آپ کو اس کے خالق کی مہارت اور کمال کا اندازہ ہوا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment