"یہ اور وہ ؛ اگر مگر ؛ کچھ نہیں ؛ ہمیں مشکور ہونا چاہئیے ان کا"
"یہ اور وہ ؛ اگر مگر ؛ کچھ نہیں ؛ ہمیں مشکور ہونا چاہئیے ان کا" |
کل سارا دن سوشل میڈیا پر ایدھی صاحب کے حق میں اور خلاف پوسٹس پڑھ پڑھ کر ہم بھی ایک نتیجے پر پہنچے وہ یہ کہ بہرحال "ایدھی صاحب ! ہم مشکور ہیں آپ کے "۔ کیوں اور کیسے؟ یہ وضاحت ذیل میں ملاحظہ ہو : -
1) عبدالستار ایدھی کے کفر کے فتوے صادر فرمانے والوں کو یہ بات یاد رہنی چاہئیے کہ کسی کو کافریا مسلمان قرار دینے کا
اللہ کو صوابدیدی اختیار حاصل ہے ؛ وہ اگر ایک کافر کو بھی بخشنا چاہے تو بخش سکتا ہے ؛ کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ ۔۔۔۔۔
اللہ کو صوابدیدی اختیار حاصل ہے ؛ وہ اگر ایک کافر کو بھی بخشنا چاہے تو بخش سکتا ہے ؛ کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ ۔۔۔۔۔
2) دوسری بات یہ کہ ( یہ نکتہ محمد فیصل شہزاد کی تحریر ہے ) عبدالستار ایدھی گویا ایک مجذوب تھے اور
مجذوب کے قول و فعل پر عنداللہ پکڑ نہیں ہوتی…پکڑ اس کی ہوتی ہے جو مجذوب کے کہے پر عمل کرے…مجذوب کہتے ہی اسے ہیں جو حالت جذب میں ہو، اس پر اللہ جل شانہ کی صفات میں سے کسی صفت کا حال ہمیشہ غالب ہو… گویا مجذوب کا حال ایک بچے کی طرح ہوتا ہے…جس کے قول و فعل پر پکڑ نہیں ہوتی مگر اس کا کوئی قول بڑے کے لیے حجت بھی نہیں ہے…میری رائے میں "اس مجذوب" پر بھی اللہ رب العزت کی صفت رحمن کا حال غالب تھا! بزرگوں کی کتابوں میں ایسے مجذوبوں کا ذکر موجود ہے، جو ہمیشہ مغلوب الحال رہنے کی وجہ سے بظاہرنہایت بے احتیاطی والی باتیں بلکہ کفریہ اقوال بھی کہہ جاتے تھے…حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتابوں میں ایسےکئی واقعات پڑھے، جن کے بعد حضرت نے یہی فرمایا کہ ان لوگوں کی ایسی باتوں سے صرف نظر کریں اور ان کے معتقد بھی نہ بنیں۔ میں نے جب بھی ایدھی صاحب کی کہی گئی متنازعہ باتیں سنیں… دکھ تو ہوا مگر میرے وجدان نے کہا، وہ قصور وار نہیں…یہ باتیں، مختلف انٹرویوز میں ہیومن ازم کے داعی لبرلز نے گویا ان کے منہ میں ڈالیں…اور انہوں نے سادگی میں کہہ دیں…اللہ ان کو معاف فرمائے… سب جانتے ہیں کہ وہ انتہا سے زیادہ سادہ اور ان پڑھ آدمی تھے… ان کے دنیاوی معاملات سے ناواقفیت کے کئی لطائف مشہور ہیں گویا وہ دین و دنیا کی باریکیوں کو نہیں جانتے تھے… بس انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار بلکہ مغلوب الحال تھے… سو ان سے نہایت مکاری سے گھما پھرا کر سوال پوچھنا اور اپنی مطلب کی بات کہلوا دینا ہیومن ازم کے دیسی مومنین کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ دور کیوں جائیے،یہاں فیس بک پر کتنے ہی عالم ہیں، جو آٹھ سال مدرسے سے پڑھ کر گویا فارغ العقل ہوئے… وہ ہیومن ازم کے ایسے پرچارک بنے ہیں کہ کیا کوئی مغربی دانش ور بنے گا… ان کی پرفریب لفظی گھمن گھمیریوں سے متاثر ہو کر کتنے ہی ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر دینیات سے بے بہرہ جوان مذہب انسانیت کو اسلام سے برتر ماننے لگے ہیں…تو ایسے فریبیوں کی چالبازیوں سے ایدھی صاحب جیسےمجذوب صفت، سادہ اور ان پڑھ کیسے بچ سکتے ہیں؟سو ان چند متنازعہ جملوں کو ان کے پس منظر سے کاٹ کر مت دیکھیں اور جناب ایدھی صاحب کی پوری زندگی، ان کی شخصیت، ان کی خدمات، ان کی سادگی کو سامنے رکھیں تو یقینا میری طرح آپ کا وجدان بھی جناب عبدالستار ایدھی صاحب کی بے قصوری کی گواہی دے گا۔۔۔۔۔
3) تیسری بات یہ کہ کوئی ظاہری حالت سے کافر لگے تو بھی اس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ وہ واقعی کافر ہے ؛ منصور کو بھی انالحق کا نعرہ لگانے پر کافر قرار دے کر قتل کیا گیا تھا مگر وہ ولی اللہ نکلے ؛ اقبال رح پر بھی کفر کے فتوے لگائے گئے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چونکہ سورج کو انگلی سے نہیں چھپایا جاسکتا ان کی پہچان ہوگئی؛ شاہ ولی اللہ رح کے پہلی مرتبہ قرآن مجید کے ترجمے پر ان پر بھی شدید قسم کے اعتراصات کئے گئے تھے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ واقعی ولی اللہ تھے؛ بنی اسرائیل میں کئی ایک انبیا ع کو پچھلی شریعتوں کے علماء نے کافر و گمراہ قرار دے کر اپنی قوم کے ہاتھوں شہید کرایا ہے ؛ خود آج کے دور میں مختلف فرقوں کے علماء کو دیکھیں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں؛آج کے دور میں کوئی ایک ایسی مذہبی ہستی نہیں ہے جس کے پارسا ہونے پر تمام فرقوں کے تمام علماء متفق ہوں ؛ اگر فتووں کی مانی جائے تو اس سے تو خود مذہبی ہستیاں محفوظ نہیں ہیں ؛ پھر مذہب سے قدرے دور افراد کی کیا مجال ہے کہ محفوظ رہ سکے۔ اگر فتووں کی مانی جائے تو پھر تو ایدھی ہی نہیں نعوذ با اللہ ذاکر نائیک بھی کافر ؛ طارق جمیل بھی کافر ؛ امام کعبہ بھی کافر ؛ خمینی بھی کافر ؛ الیاس بھی کافر؛ صوفی بھی کافر ؛ تبلیغی بھی کافر ؛ جہادی بھی کافر ؛ یہ بھی کافر ؛ وہ بھی کافر ۔فتوے کس کے خلاف موجود نہیں ہیں بھلا؟۔ تو لہٰذا کسی کے کافر قرار دینے سے کوئی کافر بنتا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
4) چھوتی بات یہ کہہ بعض لوگوں کا جو یہ کہنا ہے کہ ایدھی صاحب محض گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں اور ناجائز پیدا ہونے والے بچوں کو سپورٹ کر کے گویا ایسے افعال کی حمایت کرتے اور ترویج کرتے تھے تو اس پر سوال یہ ہے کہ کیا ایمبولینس سروس کی اس قسم کے کاموں میں کوئی ضرورت پڑتی ہے؟ یہ تو ایمبولینس کے بغیر بھی ہوسکتے ہیں یہ کام۔ یہ کام بہت سارے ایسے فاؤنڈیشنز کر رہے ہیں جن کے پاس ایمبولینسیز نہیں ہیں۔ دوسرا سوال یہ کہ کیا کسی نامورادارے کے شائع شدہ فیکٹس اینڈ فیگرز دستیاب ہیں کسی کے پاس جس میں یہ دکھایا گیا ہو کہ ایدھی صاحب نے دھماکوں؛ سیلاب ؛ زلزلوں و دیگر آفات کے متاثرین کی نسبت بس بھاگتی ہوئی لڑکیوں اور ناجائز بچوں کی سرپرستی زیادہ کی ہے۔ اور تیسرا سوال یہ کہ لڑکی بھا گ آخر کیوں جاتی ہیں؟ اس کیس میں بھاگی ہوئی لڑکی کو سہارا دینے والا قصوروار نہیں بلکہ قصوروار وہ ہے جس نے لڑکی کو بھاگنے پر مجبور کیا ہو۔ ایدھی صاحب لڑکیوں کو بھگا تے نہیں تھے اور نہ ہی بھاگنے کے فوائد کے حوالے سے پریس کانفرنسز کرتے تھے۔ وہ محض انسانی ہمدردی کی خاطربھاگی ہوئی لڑکیوں کے وارث اور کفیل بنتے تھے۔ یہی معاملہ ناجائز بچوں کا بھی تھا۔ایدھی نے کسی کو نہیں کہا تھا کہ زنا کر کے ناجائز بچے پیدا کرو اور پھر نالیوں میں پھینکا کرو بڑا اچھا کام ہے ؛ بلکہ وہ تو صرف انسانی ہمدردی کی خاطر ایسے بچوں کو دم گھٹتے ہوئے ؛ در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے ؛ اور کل کو بڑے ہوکر چور ڈاکو بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اسی موضوع کے حوالے سے چھوتا سوال یہ ہے کہ کیا اگر ایدھی بھاگی ہوئی لڑکیوں اور ناجائز بچوں کا سہارا نہ بنتے تو اس کی گارنٹی دی جاسکتی تھی کہ پھر معاشرے میں ایسا کچھ نہ ہوتا؟ یہ لڑکیاں پھر بھی بھاگتیں ؛ یہ ناجائز بچے پھر بھی پیدا ہوتے۔ اس کے ذمہ دار ایدھی کیونکر ہوئے؟ اس کے ذمہ دار عوامل ہماری میڈیا؛ انٹرنیٹ ؛ ہم میں ؛ ہمارے خیالوں اور افعال میں بڑھتی ہوئی بے حیائی ؛ شادی کے معاملات میں بڑوں کی غیر شرعی من مانیاں؛ اپنی پسند کا حق نہ ملنا ؛ چار شادیوں کو مذموم سمجھنا؛ اور شادیوں کا دیر سے ہونا ہیں۔۔۔
5) پانچویں بات یہ کی جارہی ہے کہ ایدھی چندے کے پیسے کھانے اور انسانی اعضا بیچ کر پیسے جیب میں ڈالنے کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اس کے کیا ثبوت ہیں؟ دوسری بات یہ کہ کرپشن کے پیسے کہاں رکھے ہوئے ہیں انہوں نے؟ خود پہ اگر لگاتے تو یوں فقیروں کی زندگی بسر نہ کرتے اور اگر بینک میں انہوں نے رکھے ہیں تو نواز شریف و زرداری کے مقابلے میں ایدھی ایک انتہائی کمزور انسان تھے ؛ جب نواز و زرداری سمیت دیگر اہم ممالک کے طاقتور سیاسی رہنماؤں کے اثاثوں کے تفصیلات خبر رساں اداروں لیک کر چکے ہیں تو ایدھی کے اب تک کیوں نہیں ہوئے؟
6) چھٹی بات یہ کہ گو کہ یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ بندہ جس کی سوچ ہو کہ حقوق اللہ عبس شے ہے ؛ حقوق العباد ہی سب کچھ ہے ؛ انسانیت کا خدمت گار تو ضرور ہوسکتا ہے لیکن مسلمان نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔اس پر تمام فرقوں کے علما متفق ہیں ہاں غامدی صاحب کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی البتہ :-) ایدھی صاحب کے بارے میں بھی کچھ ایسے شواہد ملتے ہیں۔ کیونکہ اسلام مرکب ہے حقو ق اللہ اور حقوق العباد کا۔ دونوں میں سے ایک بھی نکالو تو اسلام ؛ اسلام نہیں رہتا۔ اسلام کا انسانی خدمت کے دعویدار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام نعوذ با اللہ کہتا ہے کہ بھاڑ میں جائے حقوق اللہ ؛ حقوق العباد کے پیچھے پڑ جاؤ یہی دین و دنیا کی کامیابی ہے ؛ بلکہ اسلام کا انسانی خدمت کا دعویدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام حقوق العباد کو صرف اہمیت زیادہ دیتا ہے نہ کہ حقوق اللہ کو ترک کرنے اور غیر ضروری سمجھنے کا درس دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ ج کا فرمان ہے کہ میں چاہوں تو تمھیں اپنا حق بخش دوں لیکن اپنے بندے کا حق اس وقت تک نہیں بخشوں گا جب تک اس نے تمھیں معاف نہ کیا ہو۔ تو پس اگر ایدھی صاحب کے اس قسم کے عقائد واقعی تھے کہ حقوق اللہ فضول شے ہے مطلب وہ کافر بھی تھے تو بھی اسلام کہتا ہے کہ جو بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا شکر گزار ہو ہی نہیں ستکا۔ اسی طرح مزید فرمایا گیا ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔ ان ارشاد ات میں صرف مسلمان محسن کا شکر گزار ہونے کا درس نہیں ہے۔اسی طرح اسلام تو بعض مخصوص صورتوں کے علاوہ اپنا جائز بدلہ بھی کسی سے لینے کے مقابلے میں درگزر کا درس دیتا ہے۔ مطلب جو آپ کے ساتھ برا کرے اس کے ساتھ بھی اچھائی کرو۔ اس تعلیم میں بھی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید نہیں۔ اکثر بد سلوکی غیر مسلم کی طرف سے ہی متوقع ہوتی ہے۔ اس قسم کے واقعات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ صحابہ کرام اور بزرگان دین کی مبارک زندگیاں بھری پڑی ہیں۔ تو ایک ایسا دین بھلا کیسے اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ایک بندے جس کے آپ کے اور آپ کی قوم کے اوپر سینکڑوں نہیں ؛ ہزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں احسانات ہو اس کی محض اس وجہ سے تذلیل ہو کہ وہ ایک غیر مسلم تھا؟ اسلام ایسے غیر مسلموں کی عزت و تکریم سے بھلا کیونکر منع کرسکتا ہے جو بلا تفریق آپ کی اور آپ کی قوم کی خدمت میں زندگی بسر کریں ؛ جو کبھی اپنے عقائد و نظریات کے پھیلاؤ کا مشن بھی اس آڑ میں پورا نہ کر رہا ہو (واضح رہے کہ آپ کے دریافت کرنے پر اپنا عقیدہ بتانا ؛ عقیدے کا پرچار کرنا نہیں کہلاتا) ؛ جو کبھی مذہب اور اس کے مقدسات کی شان میں گستاخیوں کا مرتکب بھی نہ ہو چکا ہو؟۔ ایک طرف امام ابو حنیفہ رح ہیں کہ وہ بیچ شاگردوں میں سے اٹھ کر ؛ اہم درس منقطع کر کے ایک راہ چلتے غیر مسلم کتوں کے ماہر کے سامنے آکر ادب سے جھک کر اسے خوش آمدید کہتے ہیں جس نے اس پر صرف اتنااحسان کیا تھا کہ اسے کتے کی بلوغت کی نشانی بتائی تھی اور ایک طرف ہم ہیں کہ امام ابو حنیفہ رح کی قدموں کے خاک کی سی حیثیت بھی نہیں رکھتے اور اٹھ کر ایدھی صاحب کو غیر مسلم کہہ کر پھر اس کو جواز بنا کر ان کی بے عزتی کرتے ہیں ؛ ان پہ لعن طعن کرتےہیں جن کا ہمارے اوپر اس سے نوعیت میں کہیں بڑھ کر احسان بھی نہیں ؛ احسانات ہیں۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔اور ہمیں ناشکری سے بچائے اور ہمیں اپنے محسنوں اور ہیروز کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
No comments:
Post a Comment