تحریر: ارشد خان آستِکؔ(لیدبیرؔ) اردو شاعر و کالم نگار
انسان کی سیرت ایک کمرے کی مانند ہے۔ اور غلطیاں گندگی کی مانند ہوتی ہیں۔ اور جواز ایک خوبصورت قالین ہے۔ جب انسان غلطی کرے،تو اس کی مثال ایک ٹائلڈ اور فرنیشڈ فلور والے کمرے میں گند پھیکنا ہوتا ہے،جس سے چٹکارا پانے کے دو طریقے ہوتے ہیں:
۱) گند کو باہر پھینکا(اس طریقے کا فائدہ یہ ہے کہ اس
سے گندگی کا وجود ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کمرے سے نکل جاتا ہے،اور کمرہ حقیقی معنوں میں صاف ہوجاتا ہے،اور خامی اس طریقہ کو اپنانے میں یہ ہے کہ یہ طریقہ تھوڑا سا تکلیف دہ ہوتا ہے،وقت زیادہ درکار ہوتا ہے اس کے لئے،اٹھ کر باہر جانا پڑتاہے،توانائی زیادہ صرف کرنی پڑتی ہے اس سلسلے میں)
سے گندگی کا وجود ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کمرے سے نکل جاتا ہے،اور کمرہ حقیقی معنوں میں صاف ہوجاتا ہے،اور خامی اس طریقہ کو اپنانے میں یہ ہے کہ یہ طریقہ تھوڑا سا تکلیف دہ ہوتا ہے،وقت زیادہ درکار ہوتا ہے اس کے لئے،اٹھ کر باہر جانا پڑتاہے،توانائی زیادہ صرف کرنی پڑتی ہے اس سلسلے میں)
۲) گند کو قالین کے نیچے چُھپانا( اس طریقہ کو اپنانے میں فائدہ یہ ہے کہ یہ نسباتاََ آسان ہوتا ہے، گندگی کے بوجھ کو اٹھا کر باہر جانے کی تکلیف اس میں نہیں ہوتی۔لیکن خامی اس کی یہ ہے کہ اس طریقے سے آپ گندگی کو عارضی طور پر نظروں سے تو چھپا لیتے ہیں،مگر گندگی بہرحال کمرے میں موجود تو رہتی ہے،جو اگر دکھائی نہ دے تو کم سے اس کی بد بو ضرور محسوس ہوگی۔ اور فی الوقت ہو یا نہ ہو،ایک دن،دو بعد تو بد بو شروع ہو ہی جائے گی۔)
ایسا کمرہ جس میں گند کو ٹھکانے لگانے کے لئے طریقہ نمبر ایک کا استعمال ہوتا ہے،تو ایسے کمرے میں قالین بچھانے کی کوئی خاطر خواہ ضرورت ہی نہیں رہتی،ہاں اگر ہم ایکسٹرا ڈیکوریشن کے مقصد کے لئے ویسے ہی بچھائیں( عموماََ ٹائلڈ اور ویل فرنیشڈ فلور رکھنے والی کمروں میں قالین ڈیکوریشن کے مقصد کے لئے بھی نہیں بچھائی جاتی) تو وہ الگ بات ہے،لیکن جہاں تک ضرورت کا تعلق ہے،تو ضرورت نہیں ہوتی ایسے کمرے میں قالین بچھانے کی۔ جبکہ ایسا کمرہ جس میں گند کو ٹھکانے لگانے کے لئے طریقہ نمبر دو کا ستعمال کیا جاتا ہے،ایسا کمرہ چاہے بہت بھی ٹائلڈ فلور والا اور ویل فرنیشڈ ہو لیکن اس میں قالین بچھائے رکھنے میں ڈیکوریشن کا مقصد کم اور ضرورت زیادہ ملوث ہوگی۔
غلطی کو تسلیم کر کے،معافی مانگنا اور غلطی کو اپنے آپ سے نکال پھینکنے کی مثال،مثال نمبر ایک ہے۔ جبکہ غلطی کرنا اور تسلیم کرنے کی بجائے اس کو اچھا اقدام ثابت کرنے کی مثال، مثال نمبر دو ہے۔ غلطی آپ کیا ہی نہ کریں،جواز کی ضرورت خود بخود پیش ہی نہیں آئے گی۔ انسان اپنے کسی عمل کے لئے جب جواز پیش کرنے پہ اتر آتا ہے تو یاد رکھیں اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ واقعی یہ انسان بد کام یا پھر کم سے کم کسی مشکوک کام کا مرتکب ہوا ہے،ورنہ نیک کام کے سلسلے میں کوئی جواز پیش نہیں کرنا پڑتا۔ نیکی سب کو واضح نظر آتی ہے۔ انسان کسی بد کام کا مرتکب ہوجائے تو جواز پیش کرنے،یعنی الٹا چور کا کوتوال کو ڈانٹنے،یا چوری بھی اور سینہ زوری بھی والا معاملہ اختیار کرنے کی بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی مانگنی چاہیئے،اور اگر انسان کوئی مشکوک کام کرے(جو کہ پہلے تو کرنا ہی نہیں چاہیئے،سچے اور کھرے انسان کا کردار واضح ہونا چاہیئے، بار بار مشکوک اور پر اسرار کام کرنا سچے اور کھرے انسان کی نہیں،منافق کی خاصیت ہوتی ہے،اور خاص کر جب کوئی انسان لیڈر ہو تو لیڈر کا کوئی اقدام،خفیہ،پر اسرار یا مشکوک نہیں ہونا چاہیئے،عوامی لیڈر کو چھپی حکمتوں سے بھرے ہوئے پر اسرار قول و فعل کا مالک،جس کو عام انسان کا ذہن نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے اس سے عام انسان بد ظن ہو،نہیں ہونا چاہییئے،بلکہ اس کا قول و فعل روزِ روشن کی طرح ہر خاص ہو عام کے لئے عیاں ہونا چایئے،جس کے سلسلے میں وضاحت کی ضرورت ہی نہ پڑتی ہو،) تو تب اگر چہ ٹھیک ہے جواز پیش کرنا،مگر ایسا ایک بار ہو ، دو بار ہو،تین بار ہو،اور اگر ایسا بار بار ہو تو اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘۔
No comments:
Post a Comment