’’اسلام میں سزا کا نظریہ‘‘ |
مخلص ہیں جبکہ کچھ لوگ اس آڑ میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ او بھائیوں بہنوں! اسلام ہر گز کوئی موبائل کا پروفائل نہیں ہے کہ جس کی جیسی مرضی اس کو پرسنلائز یا کسٹمائز کر کے اپنی مرضی کے ٹونز،سکرین سیورز اور بیک گراونڈز لگا لیں۔ اسی لیئے بے شک آج کے مسلمان پہ تو اعتراض کیا جا سکتا ہے،کیوں کہ اس نے اسلام کو پرسنلائز یا کسٹمائز کیا ہوا ہے،لیکن اسلام پہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام سٹڈی کرنا ہو تو آج کل کے ضعیف عقیدے والے،ضعیف عمل والے،ضعیف مسلمان کی طرزِ زندگی کو سٹڈی کرنے کی بجائے قرآن و حدیث کو خود پڑھیں،یا رسول اللہ (ص) کی ذاتی زندگی اور اعمال یا پھر خلفائے راشدین(رض) کی زندگیوں اور اعمال کا مطالعہ کریں۔ اسلام ہر گز ظلم کرنے کا درس نہیں دیتا لیکن ظالم کو ظلم کر کے آرام سے ہضم بھی نہیں کرنے دیتا،اور’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی صورت حال کو سختی سے روکنے کے لئے سزائیں موجود ہیں۔ اسلام ہرگز خون خرابے اور بد امنی کا درس نہیں دیتا مگر اس آڑ میں بے غیرت بن کر اور دوسروں کو اپنا خون کرتے رہنے کی اجازت بھی ہر گز نہیں دیتا۔ اسی طرح اسلام کسی کافر کو مسلمان بننے پہ زبردستی مجبور کرنے کا درس بھی نہیں دیتا،لیکن کسی مسلمان کو اسلامی معاشرے میں نہیں لیکن اسلامی حکومت میں رہ کر کافر(مرتد) بننے،کافروں کے گیت گانے،کافروں کے اعمال اپنانے کی بھی اجازت نہیں دیتا،جو کہ بغاوت سمجھی جاتی ہے،اور کوئی ثقافت کتنی ہی مہذب ہونے کی دعوے کیوں نہ کرے،لیکن باغی اور بغاوت کی سزا تمام حکومتوں اور اقوام کے ہاں موجود ہے۔ کسی مسلمان کا ایسا کوئی شوق ہو تو وہ پہلے کسی غیر مسلم ریاست میں داخل ہوجائے،پھر مرتد ہوجائے اور وہاں شوق سے زنا بھی کرے،شراب بھی پیئے۔ ایک شخص کی ذاتی خواہش کی خاطر پورا اسلامی ملک اپنا قانون تو نہیں دبل سکتا،اور نہ ہی کھلے عام اسے اپنے اندر قانون کی دھجیاں اڑانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسلام زنا،چوری اور بادہ خوری کی سزائیں ضرور مقرر کرتا ہے،مگر ہر ایرے غیرے کو یہ سزائیں کسی کو دینے کا اختیار دے کر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت بھی ہر گز نہیں دیتا۔ سزا کا فیصلہ اور سزا دینے کا اختیار حکومتِ وقت کو ہی حاصل ہے کسی ایک فرد یا تنظیم کو نہیں۔ حکومت کی تعریف یہ ہے کہ ایک ایسا موثر نظام جو کہ عوام کی مرضی کے مطابق وجود میں آیا ہو اور اس نظام کے ارکان کا کام عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام نہ کرنا،الٹا ان سے بھتے وصول کرنا،اور اپنے فلاح و بہبود کے لئے ہی کام کرنا،اپنی بھوک پیاس اور جنسی ضروریات مٹانا،عوام کو محض سزائیں دینا ہر گز نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنی ضروریات پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی ضروریات مٹانا ہی اسلامی حکومت کا کام ہے۔اسی لئے تو کہتے ہیں اسلام اعتدال کا دین ہے۔ یہ قرآن کا،احادیث کا، دین محمدی(ص)کا،ریاستِ مدینہ کے نظام کا اور ریاستِ عمر(رض) کے نظام کا اسلام ہے،اس کے علاوہ جو بھی اسلام ہو،وہ کسی کا ذاتی خود ساختہ دین تو ہوسکتا ہے،اسلام نہیں ہوسکتا۔ رہی بات کلمہ اور اللہ اکبر پڑھنے کی،تو یہ جس کے پاس زبان ہو،وہ پڑھ سکتا ہے،محض کسی کے منہ سے یہ کلمات سننا ہی اس کے مسلمان ہونے کا دلیل نہیں ہے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی سزاوں کی۔ جیسا کہ عرض کیا میں نے کہ سزا اگر معاشرے کو ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والی صورتحال سے بچانے کے لئے،کسی ایک فرد یا تنظیم کی طرف سے نہیں،بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق ایک اسلامی حکومتِ وقت کی طرف سے دی جا رہی ہو تو یہ کوئی زیادتی نہیں۔ مخالفین کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اسلام میں سزا کا تصور کچھ یوں ہے کہ سزا حکومت کی طرف سے حکومت کے ذاتی غم و غصے کے نتیجے میں نہیں دی جاتی،بلکہ متاثرہ مظلوم کی خواہش پر دی جاتی ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ مظلوم کو پہلے عفو و درگزر کے اجر سے خوب آگاہ کیا جاتا ہے،اور اسلامی حکومت کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ عفو و در گزر کے ذریعے ہی معاملہ حل ہو۔ اسلام اپنے ساتھ ظلم کرنے والے شخص سے بدلہ لینے سے بہتر اسے معاف کرنا سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہے رسول اللہ (ص) نے،خلفائے راشدین نے،دیگر صحابہ(رض) نے اور بززگانِ دین نے کبھی کسی سے ذاتی بدلے نہیں لیئے ہیں۔ عفو و در گزز اور رحم دلی کی جو فضیلت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے اس پہ الگ ایک کالم لکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے ایک کامل ایمان والا،رسول اللہ(ص) اور آپ کی سنتوں سے محبت کرنے والا مسلمان کبھی اس سے زیادتی کرنے والے شخص کو سزا دینے کا مطالبہ کر کے دنیا کے اس چار دن کی زندگی کا فائدہ اپنے لیئے اہم نہیں سمجھے گا بلکہ اس کے بدلے وہ اس شخص کو معاف کر کے آخرت کا فائدہ حاصل کرنے کو فوقیت دے گا۔ قرآن حکم دیتا ہے ’’ادخلوا فی السم کافۃ‘‘ یعنی دین میں پورے کے پورے داخل ہوجاو۔ اب دین میں پورا داخل ہوا مسلمان،ایک تو خود دوسرے کے ساتھ ظلم نہیں کرے گا،اور اس کے ساتھ ظلم ہونے پر اگر وہ ایک طرف اپنا یہ حق جانتا ہو کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے شخص سے حکومت کی وساطت سے بدلہ لے سکتا ہے تو دوسری طرف وہ عفو در گزر اور رحم دلی کے درس اور اجر سے بھی واقف ہوگا، پس اگر کسی ریاست کے سارے کے سارے مسلمان ایسے ہی بن جائیں،تو پہلے تو کوئی کسی کے ساتھ ظلم کرے گا ہی نہیں،اور اگر کوئی کسی کے ساتھ کچھ برا کر بھی لے تو مظلوم دل میں ہرگز انتقام کی خواہش ہی نہیں رکھے گا،پس سزاوں کا وجود خود بخود ختم ہوجائے گا۔ اسلام نے حکم دینا ہے،اب اگر مسلمان خود کمزور ہیں اور ان سے اس پہ عمل نہیں ہو پا رہا تو اس میں اسلام کا قصور تو نہیں ہے ناں۔ زنا جیسے گناہ اور ان کی سزاوں کی نوعیت عام ظلموں سے مختلف ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسا گناہ نہیں ہے کہ فریقین میں عفو و در گزر سے معاملہ حل ہو۔ اس لئے اس کی سزا بہر حال حکومتِ وقت کو دینی پڑتی ہے۔زنا ایک عربی اصطلاح ہے جس سے اسلامی قوانین میں مراد ایک ایسے جماع (sexual intercourse) کی لی جاتی ہے جو اپنے وقوع میں قبل ازدواجی یا بیرون ازدواجی ہو؛ چونکہ زنا اپنے حیاتیاتی معنوں میں جماع ہی ہے اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب (penis) کا عورت کے مہبل (vagina) میں ادخال ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا بیان سے انداز ہو جاتا ہے کہ عربی اصطلاح زنا میں دونوں مفاہیم شامل ہیں؛ اول ، قبل ازدواجی (fornication) جماع جو کہ نکاح (شادی) سے قبل یا غیرشادی شدہ افراد کے مابین واقع ہو اور دوم ، بیرون (غیر) ازدواجی (adultery) جماع جو کہ اپنے غیرمنکوحہ (مرد یا عورت) سے کیا جائے۔ گو کہ دونوں صورتوں میں یہ زنا (جماع) ہی ہے لیکن صورت اول الذکر میں اس گناہ کی سزا ’’قرآن‘‘ کی رو سے سو کوڑوں کی شکل میں اور بعد الذکر کی صورت میں اس گناہ کی سزا ’’احادیث‘‘ کی رو سے رجم کی شکل میں بتائی جاتی ہے۔غیرازدواجی زنا کی سزا رجم کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن قرآن میں زنا کی سزا کے طور پر اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سزا کی موجودگی قرآن سے مثبوت نہیں ہے؛اور تحریف اور ضعف وغیرہ کا امکان احادیث میں پایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ پتھروں سے مارنے کے عمل (رجم) کے لئے صرف اسلام کو ہی موردِ الزام نہیں ٹھرایا جاسکتا بلکہ اس کا ذکر قدیم یونانی ، یہودی اور عیسائی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔لیکن زنا کی سزا کو بھی اگر ایک طرف زنا جیسے نا پسندیدہ عمل کی حوصلہ شکنی کے لئے اسلام نے مقرر کیا ہے،تو دوسری طرٖف اس کی راہ میں رکاوٹیں بھی ممکن حد تک ڈالی ہیں،مثال کے طور پر: ۱) ایک نہیں،دو نہیں،تین نہیں کم از کم چار گواہ اور ہر گواہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ صالح بھی ہو،مقتدر بھی ہو،عاقل بھی ہو،بالغ بھی ہو،متشرع بھی ہو، متقی بھی ہو، پرہیز گار بھی ہو،صادق بھی ہو،امین بھی ہو،جس نے کبھی نماز قضا نہ کی ہو، جو اس واقعہ کا مفصل اور آنکھوں دیکھا حال بیان کر کے اس کی شہادت دے سکتا ہو؛ یعنی اس نے متعلقہ افراد کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب کا عورت کے مہبل میں ادخال لازم ہے، گویا گواہوں کا اس ادخال کو دیکھنا رجم کی گواہی کی شرط بنتا ہے،اب آپ خود سوچیں کہ یہ ادخال دیکھنا ہی کتنا مشکل ہے، زنا عام طور پر کھلے عام پبلک میں تو نہیں کیا جاتا،یہ تو ایک پرائیویٹ عمل ہے،جس کے کرنے والوں کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ چپکے چپکے کرلے،اور پھر جب ریاست بھی اسلامی ہو پھر تو جوڑا اس حوالے سے انتہائی محتاط ہوگا۔ یاد رکھیں جب تک گواہوں نے ادخال دیکھا نہ ہو تب تک وہ گواہی نہیں دے سکتے،بغیر ادخال دیکھے گواہوں کی گواہی،بدگمانی،شک،کردارکشی اور تہمت کے زمرے میں آئے گی،اور گواہی دینے والا جب ایک کامل مسلمان ہو تو وہ ہرگز ان چیزوں کا ارتکاب نہیں کرے گا کیونکہ ان سے اسلامی تعلیمات میں سخت منع کیا گیا ہے،جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے: ۱) ’’شک کفر کی ایک شاخ ہے۔‘‘ ۲)“حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔ جو کوئی کسی مسلمان کی آبروکو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ” ۔ ( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 ) ۳)’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔ کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2011)۔ ۴)” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ )‘‘ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1022(۔ مزید یہ کہ ان گواہوں میں سے کسی کی اگر گواہی ناقص ثابت ہو تو ان پر خود سخت سزا لازم آتی ہے؛ اور کسی پر اس قسم کا الزام لگانے والوں کے بارے میں قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ: ’’اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر پھر نا لاسکیں وہ چار گواہ تو کوڑے مارو انہیں اسی (80) کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کبھی بھی۔ اور یہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ فرض کریں گواہ موجود بھی ہو،ادخال بھی انہوں نے دیکھا ہو، تو جو گواہ کامل مسلمان ہو اس کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ رسول اللہ(ص) کی اس حدیث پہ عمل نہ کرے کہ ’’ اور جو شخص کسی مسلم کے عیب پر پردہ ڈالے اللہ تعالی اس پر دنیا اور آخرت میں پردہ ڈالیں گے۔۔(مسلم) ‘‘۔۔۔اب دیکھیں گواہ پیدا کرنا ہی کیسا مشکل ہے،ینعی اب پہلےتو ایسے شرائط پر پورا اترنے والے گواہ اور وہ بھی چار پیدا کرنا ہی نا ممکن ہے۔ زنا کی سزا کو روکنے کے لئے تو صرف یہ ایک شرط ہی کافی ہے۔ گواہوں کے بغیر اگر خود جوڑا خود اقرار کرلے تو پھر بھی انہیں سزا دی جایئگی،وجہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے سامنے سرِ عام اقرار ایک تو اسلامی حکومت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر حکومت ان کو معاف کرے تو اس عمل کی معاشرتی لحاظ سے حوصلہ افزائی ہوجائیگی،پھر مزید لوگ بھی یہ کام کریں گے اور اقرار کر کے معاف ہونے کی امید رکھیں گے،اور پھر حکومت کو بھی انصاف کے تقاضے کو مد نظر رکھ کر ہر جوڑے کو معاف کرنا پڑے گا جب ایک جوڑے کو معاف کیا ہو،اور تیسری بات یہ کہ خود اقرار کرنے والا سزا خود اپنے آپ کو دیتا ہے جس میں حکومتِ وقت کا کوئی قصور نہیں ہوا،تو اس لیئے اگر گواہ نہ ملے تو جوڑے کو اقرار نہیں کرنا چاہیئے،بس دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگنی چاہیئے۔ حکومت سے اور عوام الناس سے معافی مانگنے کی ضرورت تو نہیں ہے،اگر ان سے معافی مانگنی ہوتی تو ان کے سامنے اقرار ضروری ہوتا۔ ۲)اسلام میں نکاح کے لئے مولوی کا خطبہ تو با لکل بھی زیادہ اہم نہیں ہے،لیکن گواہوں کی موجودگی سے بھی ایسا جوڑا مستثنیٰ ہے جو قبائلی روایات،خاندانوں کے مابین دشمنی،والدین کی مرضی کا نہ ہونا،یا کوئی ایسی جگہ کہ جہاں صرف ایک جوڑا ہو اور ان پر جنسی خواہش بھی غالب آگیا ہو یا ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں( میں یہ کہہ رہاہوں کہ مجبوری کے عالم میں جس طرح نماز،روزہ چھوڑنے،سور کا گوشت کھانے، حتٰی کہ کافروں کے سامنے خود کو کافر ظاہر کرنے تک کی اجازت ہے۔تو بغیر گواہ کے نکاح بھی ہوسکتا ہے، پھر بھی میں یہ نہیں کہہ رہا کہ نکاح ہونا چاہیئے،یا کوئی اچھی بات ہے،بچنا چاہیئے اس قسم کے نکاح سے۔ اور ویسے بھی اس قسم کے نکاح کے صورتحال کا پایا جانا ہی نا ممکن ہے،لازمی طور پر ایک پریمی جوڑے کی محبت کی خبر کچھ نہ کچھ لوگوں مثلا لڑکی کی سہیلیوں یا لڑکوں کے دوستوں کو ہوتی ہے۔ کچھ نہ کچھ لوگ یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو صرف وجود ہی نہیں روح بھی حوالے کیا ہے۔ اور اگر فرض کر واقعی ایسی کوئی صورتحال ہو کہ ایک خالی صحرا ہو اور وہاں صرف ایک غیر شادی شدہ جوڑا کسی حادثے میں اکیلا رہ چکا ہے،اور دنیا کے باقی لوگوں کے ساتھ کسی بھی حوالے سے ان کا کوئئ رابطہ کبھی بھی ممکن نہ ہو،اور ان پر شدید جسمانی یا محبت کے خواہشات بھی غالب ہو تو میرے خیال سے اللہ ظالم نہیں ہے کہ ان کا نکاح قبول نہیں کرے گا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اللہ ظالم نہیں ہے اور وہ مجبوریوں کو سمجھ سکتا ہے،ہوسکتا ہے کسی کے خیال میں نعوذ باللہ ’’اللہ‘‘ ظالم ہو)،جیسے دیگر مجبوریوں کا شکار ہو، تو ایسے میں لڑکا اور لڑکی اگر دل سے ایک دوسرے کو کہے کہ میں نے اپنا وجود تمارے حوالے کیا ہے اور تم مجھے پسند اور قبول ہو،تو اللہ کے ہاں ان کا نکاح ہو جاتا ہے۔ اب اس کے بعد یہ ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل کر سکتے ہیں۔ اب زنا کے الزام میں پکڑے گئے کسی جوڑے کے حوالے سے پہلے تو یہ تحقیق ہونی چاہئے کہ کہیں وہ ایک دوسرے سے محبت تو نہیں کرتے تھے،اوران کے بیچ مرنے جینے کے وعدے اور ایک دوسرے کو پسند،قبول کرنے اور ایک دوسرے کو اپنا وجود حوالہ کرنے کے الفاظ کا تبادلہ تو نہیں ہوا ہے،اگر ہوا ہو،تو ان کا نکاح اللہ کے ہاں ہو چکا ہے،حکومت کو ان کو سزا دینے کی بجائے،علی اعلان نہ صرف ان کی شادی کرنی چاہئے بلکہ ان کی حفاظت،اور شوہر کے روزگار کی بندوبست بھی ہونی چاہیئے۔ ایسی صورتحال میں اس وقت صرف عورت قصوروار ہے اگر وہ پہلے سے کسی مرد کے نکاح میں ہو،جب کہ مرد کو چار شادیوں تک کا حق حاصل ہے۔ چونکہ میڈیکل سرویز اور سب سے بڑھ کر کامن سنس کے مطابق مرد کی فطرت میں سیکس کا رجحان اس قدر زیادہ ہوتا ہے، کہ باوجود اس کے کہ وہ شادی شدہ بھی ہو،دوسری عورتوں کی جانب اس کی توجہ جاتی ہے،اس لیئے اسلام نے اسے چار تک شادیوں کا حق دیا ہے،(اس کے علاوہ بھی مرد کو چار شادیوں کی اجازت میں بہت ساری حکمتیں ہیں لیکن اس وقت یہ موضوع نہیں ہے)جبکہ اس کے مقابلے میں عورت کا سیکس کی جانب رجحان صرف شادی سے پہلے ہی پایا جاتا ہے،اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ کوئی شادی شدہ عورت اپنے صحت مند،خیال رکھنے والے اور اپنی پسند کے شوہر کی موجودگی میں دوسرے مرد سے جنسی تعلقات قائم کرے۔ شادی شدہ عورت دوسرے مرد سے جنسی تعلقات صرف چار ہی صورتوں میں قائم کرسکتی ہے،۱) کہ اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی ہو،جس میں بھی اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے،بلکہ لڑکی کے ماں باپ وغیرہ کا قصور ہے،اسلام پسند کی شادی کا درس دیتا ہے، ۲) شوہر نا مرد ہو۔ نامرد شوہر کو پہلے اپنا علاج کرنا چاہیئے اور اگر وہ پیدائشی نا مرد ہو اور ٹھیک ہونے کا کوئی چانس نہ ہو تو اسے اپنے حال پر صبر کرنا چاہیئے،اس کی زندگی تو ہے ہی خراب لیکن کسی عورت کو نکاح میں رکھ کر ایک دوسری زندگی برباد نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر کسی عورت کا شوہر نا مرد ہو تو اسے زنا کرنے کی بجائے اس معاملے سے حکومتِ وقت کو آگاہ کرنا چاہیئے،تو بہتر حل تلاش ہوگا۔ ۳)شوہرخیال نہ رکھتا ہو، مثلاََ محبت سے پیش نہ آتا ہو،یا دوسری عورتوں کے ساتھ معاشقے یا اغلام بازی میں ملوث ہو اور اپنی جنسی صلاحیت ان کاموں میں استعمال کر رہا ہو بجائے اپنی بیوی کی جنسی ضرورت پوری کرنے کے، مارتا پیٹتا ہو،نان و نفقہ کی بندوبست نہ کر رہا ہو،اس سلسلے میں بھی عورت کو حکومت کی عدالت سے رجوع کرنا چاہیئے۔ ۴) شوہر زیادہ عرصے کے لئے عورت سے دور رہا ہو۔ ایسے میں اسلامی حکومت ذمہ دار ہے اس بات کا کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ کسی منکوحہ عورت کو شوہر کے زندہ ہوتے ہوئے اس کی کسی بھی طرح کی جدائی سہنے کا موقع نہ ملے۔ ۳) اسلام کہتا ہے کہ بلوغت کے فوراََ بعد شادیاں کیا کریں،ایسا کرنےکے نتیجے میں بھی کافی حد تک خود بخود زنا کا وجود ختم ہوجاتا ہے،اور جب زنا ہی نہ رہے تو سزا بھی نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ کسی تصویر یا ویڈیو پر جذباتی ہو کر یا اس کے حق میں یا اس کے خلاف کمنٹس دینے کی بجائے،جو جس نظام کا خواہاں ہو،اسی نظام والے معاشرے میں جائے،دنیا میں مختلف مزاج والوں کے لئے نظام موجود ہیں۔ پورے نظام کو اپنی سوچ کے تحت بنانے جیسے مشکل اور بے نتیجہ کام کرنے کی بجائے انسان کو اسی نظام کے پاس جانا چاہیئے جو اس کو ٹھیک لگ رہا ہو۔ کوئی پاکستان میں بیٹھ کر افغان طالبان کی حمایت میں بول رہا ہے،کوئی یورپ اور امریکہ کے حق میں،بھئی کسی کو جو نظام پسند ہو،شوق سے اس کا حصہ بنے،لیکن یہاں سے نہیں،وہاں جا کر۔ اور دوسری بات یہ کہ اس ویڈیو اور ان تصاویر میں تو بے شک فیک ہونے کا کچھ نظر نہیں آرہا،لیکن بہرحال یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آجکل ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کافی ترقی کر چکی ہے،ہر ویڈیو یا ہر تصویر پہ بلا وجہ ضرورت سے زیادہ جذباتی نہیں ہونا چاہیئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی میڈیا سورس غیر جانبدار نہیں ہوتا،اس لئے ہر میڈیا سورس سے موصول ہونے والی خبر کا رُخ بھی سنجیدہ نہیں لینا چاہیئے۔ اور چوتھی بات یہ کہ جس آپ جس واقعے کے موقع پر موجود نہ ہو،واقع میں مولوث لوگوں اور ان کے آپس میں تعلق،ان کے معاشرے کے خدوخال کا علم نہ ہو،آپ نے قریب سے کسی واقع کو دیکھا نہ ہو،تب بھی اس پر تبصرہ کرنا اور خود سے کہانیاں گھاڑنا اور اپنے عقائد بدلنا بے وقوفی ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment