السلام علیکم۔ تجسس فورم میں خوش آمدید اور ویلکم۔۔۔ تجسس فورم پر آپ پا سکتے ہیں ۔۔۔ الف۔قومی اور بین الاقوامی امور سے متعلق خبریں و معلومات ، جنرل نالج اورشعر و شاعری سے متعلق مواد۔۔۔۔ب۔مختلف بہترین تجزیہ نگاروں کے خیالات پر مبنی کالم /مضامین/آرٹیکلز۔۔۔ج۔تعلیم ،درس و تدریس اورآئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سےمتعلق مواد جن میں پی ڈی ایف بکس/نوٹس،ٹیوشن وٹیوشن ٹیچرز/ٹیوٹرز،تعلیمی اداروں ،ڈیٹ شیٹس وامتحانات کے نتائج سے متعلق معلومات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔فی الحال اس فورم کا یہی ایک ہی ویب سائٹ ہے۔ مستقبل قریب میں ایک روزنامہ اخبار اور ایک ماہنامہ رسالہ بھی لانچ کرنے کا ارادہ ہے ان شا اللہ۔

Sunday, August 28, 2016

’’خدا کی موجودگی کے دلائل‘‘

                 ’’خدا کی موجودگی کے دلائل‘‘
  ’’خدا کی موجودگی کے دلائل‘‘
تحریر: ارشد خان آستِکؔ(لیدبیرؔ)
اردو شاعر و کالم نگار
       
      بڑی بڑی چیزیں تو دور کی بات کوئی ایک سوئی ایک کیل بھی کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں کارخانے نہ بنانے پڑتے،کام نہ کرنا پڑتا۔ ہم یہ تو مانتے ہیں کہ کمپیوٹر کو عام انسانوں نے بھی نہیں بلکہ عالم فاضل سائنسدانوں نے بنایا ہے جو کہ صدیوں کی محنت کے باوجود بھی اس لیول کے کام سر انجام دینے
سے قاصر ہے جو انسانی دماغ سر انجام دے سکتا ہے،اور اگر بالفرض یہ اس لیول تک پہنچ بھی گیاتب بھی انسانی دماغ کو اس کے خالق ہونے کا امتیازی اعزاز رکھنے کی وجہ سے بحرحال اعلیٰ سمجھا جائے گا،تو کمپیوٹر کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتا اور انسان جو کہ کمپیوٹر کے مقابلے میں کروڑ گنا اعلیٰ ہے ،کا خود بخود بننا ممکن ہے؟صرف انسان ہی نہیں ۔ہر جاندار اپنی جگہ پر ایک ایسا پیچیدہ اور ڈیویلپ مشین ہے کہ سائنس بارہا یہ اعتراف کرتا آرہاہے کہ ہمارے بنائے گئے مصنوعی مشینیں کبھی اس کے لیول تک نہیں پہنچ سکتے۔ مصنوعیت (Artificiality)کبھی بھی قدرت (Nature) کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بھلا مصنوعی،دانت،مصنوعی آنکھ،غرض کوئی بھی مصنوعی عضو کیا قدرتی عضو سے اعلیٰ ہوسکتا ہے؟یقینا نہیں۔ خود بخود اگر چیزیں وجود میں آتیں توپھر یہ مصنوعی چیزیں جن کو ہم اتنی محنت سے تیار کرتے ہیں،بھی خود بخود بنی ہوئی ادھر ادھر پڑی ہوئی ملتیں۔ ہمیں انہیں بنانے کی محنت نہ کرنی پڑتی۔کیونکہ جب قدرتی چیزیں جو کہ ان کے مقابلے میں لاکھوں گنا پیچیدہ ہوتی ہیں خود بخود وجود میں آسکتی ہیں،تو پھر ان کم پیچیدہ چیزوں کا خود بخود وجود میں آنا کونسا مشکل ہے۔ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ(رح) کا ایک مرتبہ دہریوں سے مناظرہ طے پا یا گیاتا ہم مناظرے کے لئے حاضر ہوتے وقت آپ نے آنے میں تاخیر کی جس پر دہریوں کو آپ کو تنقید کا نشانہ بنانے کا خوب موقع مل گیا ،کوئی کہنے لگا،کیوں بے،مناظرے میں ہارنے کی خوف کی وجہ سے آپ کی تیاری مکمل نہیں ہو پا رہی تھی اس لئے دیر کردی ناں؟توکسی نے کہا دیکھ اگر سچے ہوتے تو پہلے تو آپ مقررہ وقت پہ پہنچنے کا وعدہ ہی نبھا لیتے!  آپ نے سب کے اعتراضات تحمل سے سننے کے بعد اپنی بات شروع کی اور فرمایا کہ میں معذرت خواں ہوں اس کے لئے کہ وقت پہ نہ پہنچ پایا،اصل میں میرا ادھر آتے ہوئے ایک دریا سے گزر ہوا، جب دریا رستے میں آگیا تو میرے پاس دریا کو پار کرنے کا کوئی ترکیب نہیں تھا،میں دریا کے کنارے کھڑا ہوگیا اور پریشانی سے دریا کو تک رہا تھا کہ اتنے میں دریا کے کنارے کھڑا ایک درخت خود بخود کٹ کر گر گیا،پھر حصوں میں تقسیم ہوگیا اور پھر کچھ حصے ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ گئے اور کشتی بن گئی اور پھر وہ کشتی دریا میں اتر گئی میں اس میں بیٹھ گیا لیکن ابھی ایک پریشانی یہ تھی کہ میں کوئی ملاح تو تھا نہیں تو کشتی چلائے گا کون؟،یہ فکر پڑگئی لیکن جلد ہی کشتی خود بخود جانا شروع ہو گئی اور اسی طرح میں دریا پار کر کے یہاں پہنچ گیا۔ اسی وجہ سے دیر ہوگئی مجھے۔ یہ سن کر دہریوں کو ہنسی روکنا مشکل ہوگیا اور کہنے لگے کہ یا تو آپ خود پاگل ہیں یا ہمیں بے وقوف سمجھ رکھا ہے،بھلا خود بخود کشتی بن اور پھر چل سکتی ہے؟اس پر آپ مسکراکر فرمانے لگے کہ یہ ہوئی ناں بات۔ حضرات! میرا تو اس پر آپ لوگوں سے زیادہ مضبوط یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، جب ایک کشتی نہ خود بخود بن ستکی ہے،نہ چل سکتی ہے تو یہ اتنی بڑی کائنات خود بخود کیسے وجود میں آئی اور کیسے چل رہی ہے؟ اسی طرح ایک اور ملحدایک مسلمان کے سامنے خدا کے وجود کا انکار کر رہا تھا،اور اسے للکار رہا تھا کہ ثابت کر سکتے ہو خدا کے وجود کو؟ تو اس مسلمان نے اسے کہا کہ اپنی گھڑی ذرا دے دو مجھے،ملحد نے گھڑی اتار کر دے دی،مسلمان نے اس سے بیٹری سل نکالا اور گھڑی دوبارہ ملحد کو تھماتے ہوئے بولا،کیا آپ کی گھڑی کام کر رہی ہے؟،ملحد نے کہا آپ نے سل نکالا تو کام کیسے کریگی؟ مسلمان بولا،سل کا اس سے کیا تعلق؟ ملحد بولا بھئی سل اس کو چلنے کے لئے توانائی مہیا کرتا ہے ناں! اپنے اندر مخفی طور پر کیمیائی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کر کے گھڑی کو سپلائے کر رہا ہے جس کو گھڑی مکیانی توانائی میں تبدیل کر کے اپنا کام چلاتی ہے، اس پر مسلمان مسکرا کر بولا اگر آپ کی یہ ایک چھوٹی سی گھڑی بغیر توانائی کے مہیا کرنے والی ایک ذات کے نہیں چل سکتی،تو اتنی بڑی کائنات کیسے چل رہی ہے اور اس کو اتنے بڑے پیمانے پر توانائی کون فراہم کر رہاہے؟  یہ ایک عام فہم سی بات ہے کہ کوئی معمولی سا مشین بھی اپنے خالق اور چلانے والے کے بغیر نہیں پایا جاتا،پھر کائنات کا یہ ان گنت پیچیدہ ترین مشینوں پر مشتمل ایک وسیع ترین نیٹ ورک خود بخود کیسے بنا اور کیسے چل رہا ہے؟انتا پیچیدہ نیٹ ورک کہ اس کے کسی چھوٹی سی چھوٹی اکائی کا بھی اگر ہم مطالعہ شروع کریں تو اس کے اندر بھی ایک الگ کائنات برآمد ہوجاتی ہے۔ایٹم،جس کو کسی دور میں ناقابلِ تقسیم چھوٹا ترین ذرہ کہا جاتا تھا، کے اندر بھی اب تک چالیس سے زائد ذرات برآمد ہوچکے ہیں۔ انسان ستاروں اور سیاروں جیسی بڑی بڑی چیزوں اور دوسری مخلوقات کو تو چھوڑیں ،صرف اپنی ذات کو ہی لے لیں۔اس کا ایک ایک عضو اپنے اندر اتنا پیچیدہ نظام لئے ہوا ہے کہ اس کو سمجھنے کے لئے ڈاکٹر بننے والے لوگ  آٹھ،دس سال مطالعہ اور عملی تجربات کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آئی سپیشلسٹ صرف آنکھ کا آٹھ ،دس سال تک مطالعہ کرتا ہے،تب کہیں جا کر اس کو انسانی جسم کے محض اس ایک عضو کی سمجھ بوجھ حاصل ہوجاتی ہے،اور اس کے باوجود بھی  وہ اس عضو کے کچھ امراض کو ’’لا علاج‘‘ قرار دیتا رہتا ہے۔ اور پھر کائنات میں صرف انسانی جسم کا نظام ہی تو نہیں۔ کائنات تو لا تعداد پیچیدہ مشینوں اور نظاموں پر مشتمل ہے۔ہم کس کس مشین یا نظام کے بارے میں کہیں گے کہ یہ خود بخود وجود میں آیا ہے۔ خود بخود یا اتفاقاََ تو ایک مشین یا نظام وجود میں آسکتا ہے،دو آسکتے ہیں،تین آسکتے ہیں،لیکن یہ اتنے سارے تو نہیں آسکتے ناں۔  اتنے سارے  مشینوں اور نظاموں کا خود بخود موجود ہونے کے مقابلے میں ان کے ایک خالق ذات کا خود بخود موجود ہونے کا یقین  کرنا زیادہ آسان ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کو سائنس نے دریافت نہیں کیا ہے جو کہ انتہائی جاہلانہ خیال ہے،سائنس کب کے خدا کو دریافت کرچکا ہے۔ مذاہب کے حوالے سے خدا کی تعریف یہ ہے کہ :
ا) خدا کوئی طبعی(Physical)  یا مادے سے بنا ہوا  وجود نہیں ہے۔
۲) کوئی مخصوص طبعی وجود نہ رکھنے کے باوجود وہ تمام طبعی یامادی  اشیاء کو کنٹرول کر رہا ہے۔
۳)مادی اشیاء مکمل طور پر ناموجود تھے،اور اس نے انہیں پیدا کیا۔ یعنی Absolute Nothing   سے  Something  بنایا۔
۴) اور اس نے پوری کائناتک کی ایک ساتھ بھی ایک عمر مقرر کی ہوئی ہے اور کائنات میں انفرادی طور پر بھی اشیاء کی عمریں مختص کی ہوئی ہیں۔
۵)وہ کائنات کو چلاتے ہوئے گویا اپنی موجودگی کو ظاہر کر رہا ہے۔
۶) وہ زمان وہ مکان کی قید سے باہر ہے۔
۷) اس کو ہم دیکھ اور چھو نہیں سکتے۔
 اور سائنس کے ہاں یہی سات نکات پر مشتمل تعریف قدرتی قوتوں کے ایک مجموعے  
  A Set of Natural Forces) )  جو کہ بنیادی طور پر چار قوتوں

Strong Force,
Weak Force,
Electromagnetic Force,
Gravitational Force      
پر مشتمل ہے،کی بھی ہے جس کے بارے میں ہم Werner Heisenberg's uncertainty principle  کے مطابق  Quantum Fluctuation کے تحت کہہ سکتے ہیں کہ اس قدرتی قوتوں کے مجموعے نے کائنات کو تخلیق کیا،چلا رہا ہے اور ختم بھی کریگا۔ فرق صرف نام کا ہے کہ سائنس اسے ’’قدرتی قوتوں کا ایک مجموعہ‘‘ کا نام دے رہا ہے اور مذہب اسے ’’خدا ‘‘ کا نام دے رہا ہے۔ اور پھر ’’سرچشمہ‘‘ اور ’’مجموعہ‘‘ کے الفاظ میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ مذاہب خدا کو ’’تمام قوتوں کا سر چشمہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ بحرحال یہاں پہ ملحدین اس ’’مجموعہ‘‘ کے لفظ کو لے کر بات کا بتنگڑ بنانے کی کوشش کرینگے،کہ خدا کا وجود تو واحد ہے جبکہ سائنس تو چار قوتوں کو کائنات کے خالق اور چلانے والے کہہ رہا ہے، ایسے حضرات کے لئے عرض ہے کہ ماڈرن فزکس میں Grand Unification Theory کے تحت قوتوں کا یہ مجموعہ اب ’’مجموعہ ‘‘ نہیں رہا،بلکہ اس کو ایک واحد قوت کہا جاتا ہے۔ ’قوت‘‘ کی سائنسی تعریف اور خدا کی مذاہب کی فراہم کردہ خدا کی ذات کی ساخت کے حوالے سے تعریف میں مکمل مماثلت پائی جاتی ہے۔ جو فرق ہے وہ خدا کے Behaviorکے حوالے سے صفات میں ہے  یعنی کہ مذاہب میں خدا کو ’’الحیَ ‘‘ یعنی زندہ، قابلِ رابطہ،اور زندوں کی طرح سماعت،بصارت،سمجھ،اور علم رکھنے والی ہستی کہا گیا ہے ۔ جبکہ سائنس کے مطابق ایک ’’قوت‘‘ یعنی  Forceمیں اس قسم کے صفات نہیں ہوتے۔یقینا جو ۹۹ صفات خدا کے بیان ہوئے ہیں مذہبِ اسلام میں وہ سائنس میں ’’قوت‘‘ کے صفات نہیں ہوسکتے۔ تو  بھئی اول تو یہ بات ہے کہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہےـــ’’جس کی پہنچ جہاں تلک،اس کے لئے وہیں پہ توُ‘‘۔ میرا مقصد صرف  اور صرف یہ تاثر دینا تھا کہ یہ کہنا کہ سائنس خدا کی ذات سے انکاری ہے،غلط ہے،سائنس بھی مانتا ہے خدا کو،مگر جس طرح مختلف مذاہب میں اور تہذیبوں میں خدا کے لئے الگ الگ Approachesہیں،الگ الگ صفات اس کے بیان ہوئے ہیں،الگ الگ شکلیں اس کے لئے مختص کی گئی ہیں،الگ الگ نام اس کے لئے رکھیگئے ہیں،اسی طرح سائنس کا بھی ایک اپنا Approachہے اس کے حوالے سے۔  گویا یہ کہنا غلط ہے کہ سائنس خدا کے وجود سے ہی انکاری ہے،ہاں مگر خدا کے حوالے سے اس کی  Approach مختلف ہے یہ کہنا بے شک بجا ہوگا۔ جس طرح مختلف مذاہب اور تہذیبوں نے اپنے اپنے Approachesکے مطابق کسی نے کیا کہہ کر واضح کی ہے اس کی ذات تو کسی نے کیا،اسی طرح سائنس نے اپنے Approach کے تحت اس کی ذات کو  ’’قوت‘‘ کہہ کر واضح کیا ہے۔اب کس کیApproach درست ہے،اور اس کی ذات حقیقت میں کیا ہے،یہ پتا لگانا مخلوق ہونے کے ناطے ہمارے لئے نا ممکن ہے،اسی لئے اس کی ذات کے حوالے سے مذاہب نے غیب پر ایمان رکھنے کا درس دیا ہے،اس کی ذات ہماری سمجھ سے کیوں با ہر ہے،اس کا جواب میں نے اپنے اسی پیج پر موجود آرٹیکل ــ’’وجودِخدا مافوق الفطرت کیوں‘‘ میں تفصیل سے دیا ہے۔  ۔ خدا کے حولے سے سائنس کے Approach پہ اگر ہم غور کریں یعنی خدا کو ’’قوت‘‘ کہنا تو خدا کے لئے جو ۹۹ صفات بیان ہوئے ہیں اسلام میں وہ صفر ہوجاتے ہیں،یہ غلط بات اس لئے ہے کہ ٹھیک ہے کہ سائنسی قوت میں وہ خصوصیات نہیں ہیں جو ۹۹ صفاتی ناموں میں بیان ہوئے ہیں لیکن ہم اگر دیکھیں تو نیوٹن نے ’’ قوت‘‘ کی وضاحت میں ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ قوت کسی  مہیا کرنے والے کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ تو میرے نزدیک جو خدا کی تعریف ہے،وہ یوں ہونی چاہئے کہ سائنس جس واحد قوت کو کائنات کو پیدا کرنے والی،چلانے والی،اور تباہ کرنے والی خدا کہتا ہے،خدا اصل میں وہ ’’قوت‘‘ نہیں بلکہ اس قوت کو مہیا کرنے والی  ذات  ہے۔  پس اگر قوت میں سماعت،بصارت،علیمی،خبیری وغیرہ وغیرہ کے صفات نہیں پائے جاتے تو اس ہستی میں تو پائے جا سکتے ہیں جس نے یہ قوت میہا کی ہے۔ کیونکہ اس قوت کا خاص طریقے،ترتیب سے،مناسب جگہوں پر مناسب استعمال اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ وجودِخدا کے مخالف لوگو ں کے پاس خدا کا انکار کرنے کے لئے سوائے ’’نظریہ اتفاق‘‘ کے کچھ بھی نہیں ہے،جبکہ کائنات نہ کسی اتفاق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور نہ چل رہی ہے۔با قاعدہ طبعی و کیمیائی قوانین
(Physical and Chemical Laws)  ہیں جن کے تحت کائنات وجود میں آئی ہے اور چل رہی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اتفاقات ہوتے تو آپ جب پتھر کو ہاتھ میں پکڑ کر اٹھا تے اور پھر چھوڑتے،تو ہر وقت سیدھا نیچے کی طرف گرنے کی بجائے کبھی یہ شمال کی طرف جاتا،تو کبھی جنوب کی طرف،کبھی مشرق ،تو کبھی مغرب اور کبھی کبھار اوپر کی طرف جاتا۔ کائنات میں ایک باقاعدہ کوڈ نظام جس کو کائناتی کوڈ نظام( Universal Code System)کہا جاتا ہے، کی کارفرمائی صاف نظر آتی ہے۔ کائنات میں موجود ہر شے کا تعین فطرت کی بنیادی جوہری قوتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان قوتوں کے زور کو کچھ اعداد کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے،جنہیں اساسی مستقلات کہتے ہیں،وہ انتہائی دقیق اور حساس ہیں،اس حد تک کہ اگر ذرابرابر بھی مختلف ہوجاتے تو یہ کائنات نہ بنتی اور نہ اس کا کارخانہ یوں منظم طریقے سے چل رہا ہوتا جیسا کہ اب تک ہورہا ہے۔مثال  کے طور پر اگر بگ بین کے فوراََ بعدکائنات کی توسیع اور اس کے پھیلنے کی شرح ایک کوینٹیلین (Quintillion)میں صرف ایک حصے کے حساب سے بدل جاتی( کوینٹیلین 1کے آگے 18صفر لگانے سے بننے والے اماؤنٹ کو کہتے ہیں)تو کائنات یا تو پھیلتی ہی چلی جاتی،یا اپنے آپ میں واپس سکڑتی جاتی،اور ان دونوں حالات میں کائنات کا بن کر یوں قائم رہنا ممکن نہ ہوتا بلکہ بنتے ہی فوراََ تباہ ہوچکی ہوتی۔ایک حصہ فی کوینٹیلین کس قدر چھوٹا ہے،اس کی وضاحت کے لئے اگر ہم فرض کریں کہ کوئی ساحل ہے اور وہاں پر موجود ریت کے ذرات کی تعداد ایک کوینٹیلین ہے،اگر یہ ساری ریت بگ بین کے کے فوراََ بعدہونے والے کائنات کے پھیلاؤ کی شرح کی نمائندگی کر رہی ہے تو کائنات کی تباہی کے لئے صرف ایک ذرے کی کمی یا اضافہ کافی تھا۔توسیع کائنات کی رفتار کی یہ حساس Accuracy   بلا کسی ادنیٰ تردد و تامل کے،کسی ذہین کنٹرول کرنے والے کا پتا دیتی ہے۔ اسی طرح اگر بگ بین کے بعد مادے کی تقسیم پوری کائنات میں ایک جیسی ہوئی ہوتی تب بھی کائنات کواس قسم کا وجود ،جس کو ہم دیکھ رہے ہیں،باقی رکھنا نا ممکن ہوتا۔ اگر مادے کی تقسیم مکمل طور پر ہموار ہوتی تو جھرمٹ (Constellations)  نہ بنتے،جن میں کششِ ثقل پائی جاتی ہے اور نتیجے میں کہکشائیں اور شمسی نظام تشکیل پاتے ہیں۔لہٰذا کائنات میں مادے کی تقسیم میں کسی حد تک بے ضابطگیوں اور نا ہمواریوں کی ضرورت تھی۔لیکن اگر یہ بے ضابطگیاں اور نا ہمواریاں اپنی مطلوبہ مقدار سے ذرا کم رہ جاتیں تو ستاریں اور کہکشائیں وجود میں نہ آتیں،اور اگر ذرا زیادہ ہوجاتیں تو پوری کائنات بلیک ہولز کی شکل اختیار کرلیتی۔اگر یہ تقسیم مطلوبہ درست مقدار کے ساتھ ہوتی تب بات بنتی لیکن زندہ مخلوق کا کائنات میں پائے جانا پھر بھی نا ممکن ہوتااگر ستاروں کے اندر کچھ خاص پیچیدہ ریکشنز نہ ہوتے جن کے نتیجے میں ہیلئم اور ہائڈروجن کاربن اور اس جیسے دیگر بھاری عناصر میں تبدیل ہوئے اور وہ خام مال فراہم ہوا جو چھوٹے ستاروں،سیاروں اور با الآخر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے کے لئے استعمال ہوا۔اگر فزکس کے قوانین ،بلکہ قوانین تو کیا اگر صرف طبعی مستقلات (Physical Constants)موجودہ حالت سے کچھ ذرا سے مختلف ہوتے تو نیوکلیائی ترکیب و امتزاج (Nuclear Fission and Fusion)یعنی ستاروں کے بننے کا عمل نا ممکن ہو جاتا اور یوں کائنات اس حالت میں اور خاص طور پر زندہ مخلوق نہ پائی جاتی۔ کوئی ایک سائنسدان بھی ایسا نہیں ہے جو اس بات کا مخالف ہو کہ کائنات آخری حد تک انوکھی،عمدہ،معقول،مکمل،محکم اور زبردست ہے۔ کائنات کی یہ غیر معمولی طور پر زبردست تنظیمِ دقیق (Fine Tunning)ایک الوہی،علیم و قدیر ذات کے وجود کا پتا دیتی ہے۔ کیا ’’اتفاق‘‘ اتنا علیم،قدیر،عزیز و خبیر ہوسکتا ہے؟  مریخ سے حاصل کی گئی  تصویر میں محض ایک معمولی سا نقشہ بنا ہوا نظر آنا،وہاں پر کسی ذہین مخلوق کی موجودگی کا ثبوت ہوسکتا ہے اور اتنے سارے کمال درجے کے پیچیدہ مشینوں اور نظاموں پر مشتمل اتنی بڑی کائنات کواتنی پیچیدہ طریقے سے بنانیاور برقرار رکھنے میں کسی  حد درجے کی ذہین ذات کا کوئی ہاتھ نہیں ہوسکتا؟ یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟  دوسری بات یہ کہ مذہب کی تعلیمات پہ کامل طریقے سے عمل نہ کرنا اور خدا کا وجود ہی نہ ماننا دونوں مختلف مسلے ہیں۔ انسانوں کی اکثریت اگر چہ بشری کمزوریوں کی وجہ سے مذہب کی تعلیمات پر سو فیصد عمل در آمد نہیں کرسکتی ،لیکن خدا کو مانتی ضرور ہے۔ تقریباََ ۹۰ فیصدانسان خدا کے وجود کو کسی نہ کسی شکل میں ضرور مانتے ہیں۔ جمہوریت کے اصولوں کے مطابق اکثریت بے وقوف نہیں ہوسکتی،ان کے مقابلے میں دو چار لوگ بے وقوف ہوسکتے ہیں۔اور پھر یہ دو چار بظاہر خدا کے وجود کے انکاری لوگ بھی خدا کو مانتے ہیں مگر فرق صرف یہ ہے کہ یہ طبقہ خدا کے لئے نیچر  (Nature) کا اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔یہ کہتے ہیں ہم مذہبی خدا کو نہیں مانتے،ہم نیچر کو مانتے ہیں ،سورج اور چاند کو نیچر نے اپنے اپنے مداروں میں رکھا ہوا ہے،ستاروں کے درمیان کششِ ثقل نیچر نے ڈالی ہوئی ہے،مرد اور عورت کے لئے ایک دوسرے میں کشش نیچر نے رکھی ہوئی ہے،کائنات کو نیچر نے بنایا ہے اور نیچر اس کو ایک خاص ترتیب سے چلا رہی ہے۔ مجھے ایسے انسان پہ ہنسی آتی ہے۔بھئی نیچر اور خدا میں فرق کیا ہوا بھلا؟صرف لفظ کا ہی تو فرق ہے۔ کوئی اسے مذہبی خدا کہے،کوئی نیچر کہے،کوئی اسے بھگوان کہے،کوئی نروان کہے،کوئی اسے خدا کہے کوئی اللہ کہے،کوئی جو مرضی کہے مگر خلاصہ یہی ہے کہ کائنات کو بنانے اور چلانے والی ایک عظیم ہستی موجود ہے۔  ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ خدا کا وجود ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کو ماننے کے لئے انسانی فطرت کو دلائل کی خاطر خواہ ضرورت نہیں پڑتی،لیکن خدا کا انکار کرنے کی صورت میں دلائل پہ سوچ سوچ کر انہیں مصنوعی طور پر بنانا پڑتا ہے۔  انسان کی باتیں،اس کا معاشرہ،اس کے خیالات،اور اس کی حاجتیں ،خدا کے تذکرے سے خالی ہو ہی نہیں سکتیں۔ چاہے وہ اس کی ذات کو اقرار کے وقت زیرِبحث لائے یا انکار کے وقت،لیکن خدا کا لفظ انسان کی کتاب میں بحرحال موجود رہتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے’’نہیں ہے توُ تو پھر انکار کیسا؟ نفی بھی تیرے ہونے کا پتا ہے‘‘۔ وجودِ خدا پر اگر یقین رکھنا خلافِ فطرت ہوتا،غلط بات ہوتی،اور خدا کی عدم موجودگی ایک کائناتی سچ ہوتا،تو انکار کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ جس طرح میں کہوں کہ سورج کے سینگ نہیں ہیں۔ تو یہ ایک کائناتی حقیقت ہے،جس میں انکار کی ضرورت ہی نہیں ہے۔سو یہ نفی بھی اس کے وجود کا ثبوت ہے۔

No comments:

Post a Comment