’ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو‘‘
کہنے کی حد تک تو جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ لیکن مسلہ یہ ہے کہ اردو زبان کے ساتھ ہر کوئی کھیلتا ہے۔ یہ زبان اگر پاکستان کی Westren Mindedلوگوں کے پاس چلی جاتی ہے تو وہ لوگ 70% انگلش اس میں شامل کرتے ہیں اور کچھ 30% اردو کے
اصل الفاظ بولتے ہیں۔ اردو کا یہ روپ پیش کرتے ہیں۔ ان Westren Minded لوگوں کی طرف سے اردو کےاس روپ کو رد کرنے کے لئے جو دوسری جماعت سامنے آتی ہے تو وہ ہے دینی جماعت ۔ دینی طبقہ کہتا ہے کہ اردو کا یہ روپ غلط ہے،تو وہ جو خود اردو کا روپ پیش کرتے ہیں اس میں 70% عربی زبان کے الفاظ شامل ہوتے ہیں یا کبھی کبھار فارسی الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور کچھ 30%ہی نارمل اردو کے الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں۔اکثر اردو کے Pronounciationکالہجہ بھی عربی وفارسی کے طرز پر ہوتا ہے ان کے ہاں۔ پس اردو زبان کا الگ تشخص کوئی قائم ہونے ہی نہیں دے رہا۔ Westren Minded لوگ یہ جواز پےش کرتے ہیں کہ اردو تو مرکب ہے مختلف زبانوں کا،سو اس میں آج بھی مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جگہ دینے کی Potential موجود ہے۔ اس کا رستہ کوئی نہیں روک سکتا کہ اردو میں کوئی اور لفظ استعمال ہو۔ اور پھر انگریزوں نے اور انگلش زبان نے برصغیر میں کافی وقت گزاراہے۔مل جل کر انگریز یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رہے ہیں۔ دینی طبقہ یہ جوازپیش کرتا ہے کہ محمد بن قاسم کا ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد،ان کے بہادری کا چرچہ اور بہترین اخلاق کی وجہ سے ہندوستانیوں میں عربوں کا اور عربی زبان کا اثرورسوخ بڑھ گیا۔ پھر مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ اس عرصے میں ہندوستان کی قومی زبان زیادہ تر فارسی ہی رہی۔مسلمانوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے عربی زبان کا بھی مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے کی وجہ سے اثرورسوخ برقرار رہا۔ لہٰذا اسی وجہ سے اردو زبان کا ایک بڑا حصہ عربی اور فارسی زبان کا اس میں داخل ہونے سے بنا ہے۔۔۔۔۔Westren Minded لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئیے کہ ہر زبان جب شروع میں بنتی ہے تو ظاہر ہے اس میں دوسری مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہو کر ہی اسے بناتے ہیں ،ایسی تو دنیا میں شائد 5% ہی زبانیں ہونگیں جو مکمل طور پر بذات خود اپنے الفاظ پیدا کر کے وجود میں آئیں ہوں۔ لیکن جب ایک زبان بذات خود ایک الگ زبان کی حیثیت کے طور پر دنیا کے سامنے آجاتی ہے تو پھر وہ دوسری زبانوں کے الفاظ کے لئے Block ہوجاتی ہے۔ پس انگریز جس وقت ہندوستان پر مکمل چھا گئے اس وقت اردو ایک مکمل الگ زبان کے طور پر سا منے آچکی تھی۔ پس اب اس میں انگلش کے الفاظ شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔اور دینی طبقے کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ اردو میں اگر محمد بن قاسم کی عربی اور جلال الدین اکبر (مغل اعظم) کی فارسی شامل ہے تو اس میں راجہ داہر اور جودا اکبر کی ہندی بھی اتنی ہی شامل ہے۔ اسی طرح اس میں قدیم پنجابی زبان بھی شامل ہے ۔ ظہیرالدین بابر کی ترکی زبان بھی اس میں شامل ہے۔لیکن ان ساری زبانوں کے الفاظ کا اردو میں شامل ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آج بھی اگر کسی کا جی چاہے تو ان زبانوں میں سے کسی بھی زبان کا نیا لفظ لا کر اردو میں استعمال کرتا پھرے اور دعویٰ کرے کہ اردو میں چونکہ یہ زبان شامل ہے پس اس کا ہر لفظ اردو کا لفظ کہلایا جاسکتا ہے ، نہیں ایسا ہر گز نہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تواس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اردو زبان نامی کوئی زبان حقیقت میں موجود ہی نہیں ہے۔ اردو جس وقت دنیا میں ایک الگ زبان کے طور پر سامنے آگئی تھی ،اس وقت یہ جن الفاظ سے مل کر بنی تھی ،وہی اس زبان کے الفاظ ہیں۔اب یہ باقی الفاظ کے لئے Block ہے۔کوئی اپنی چاہ کے مطابق اس میں اب نئے مترادف الفاظ شامل نہیں کرسکتا ۔ہاں البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جس کے لئے اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں سرے سے کوئی لفظ موجود ہی نہ ہو،تو اس کے لئے کوئی لفظ تجویز کرنا جائز ہے لیکن اس کا حق بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہے، یہ کام صرف اردو ادب کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی کا ہے۔ جس کا جی چاہے وہ اپنی مرضی کے الفاظ زبان میں شامل کرتا پھرے،اس سے زبان کا تشخص اور حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ ایسی سرے سے کوئی زبان ہوتی ہی نہیں جو ہر دور میں مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر آنے کے لئے رستہ دے رہی ہو۔ کم از کم کسی غیرت مند قوم کی زبان تو ایسی نہیں ہوتی۔ پس کسی بھی طبقے کو اردو زبان Personalize یا Customize کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ نہ مسلمانوں کے مذہبی طبقے کو، نہ ہندوؤں کو، نہ مغرب پرست لوگوں کو۔ اردو زبان کا ایک الگ تشخص برقرار رکھا جائے۔۔۔۔ رہا مسئلہ اردو کا عملی طور پر بطور قومی زبان نفاذ کا،تو ہم وہ بد قسمت قوم ہے کہ آج تک ہم اپنی قومی زبان کے حوالے سے Confusion کا شکار ہیں۔ ہم میں اتنی Decision Making Power ہی نہیں کہ ہم اپنے لئے قومی زبان کا انتخاب کرسکے۔ اگر اردو ہماری قومی زبان ہے تو انگلش کیوں یہاں پہ اردو سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اہمیت تو بہت بڑی بات ہے ،انگلش بطور زبان آخر رائج ہی کیوں ہے۔Westren Minded لوگ اس کی یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ ہماری قومی زبان تو بے شک اردوہی ہے ، انگلش تو اس وجہ سے رائج ہے یہاں کہ یہ ہماری Official language ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی غیرتی اور Standard اقوام ہیں ان کی قومی اور آفیشل زبان الگ الگ نہیں ہوا کرتی۔ آفیشل زبان نامی کوئی زبان ہوتی ہی نہیں ہے ان کے ہاں۔ جو ان کی قومی زبان ہوتی ہے وہی ان کی آفیشل زبان بھی ہوتی ہے۔پس ہمیں اس منافقت اور دوہرے پن کی Situation سے نکل کر صاف فیصلہ کرنا چاہئیے کہ ہماری قومی زبان کونسی ہونی چاہئیے۔ باقاعدہ ووٹنگ ہونی چاہیے اس پہ، اگر زیادہ لوگ اردو کے حق میں ووٹ دیں تو انگلش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے اور مکمل طور پر صحیح معنوں میں اردو کا نفاذکرنا چاہیے اور اگر زیادہ لوگ انگلش کے حق میں ووٹ دیں تو اردو کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر مکمل طور پر انگلش کا نفاذ کرنا چاہیے۔ اعمال کے لحاظ سے تو ہم پہلے ہی سے منافقت سے کام لےنے کے ہم عادی ہیں ،یہ عادت چھوڑنا تو ہمارے بس کا کام ہے ہی نہیں،لیکن کم سے کم زبان کے معاملے میں تو منافقت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ہماری قومی زبان ایک اور Well Defined ہونی چاہیے۔ اردو زبان کو اگر ہم مکمل طورپر 100% اپنا نہیں سکتے تو بجائے اس کے کہ ہم اس کا حلیہ بگاڑنے میں Contribution کر کے اس کو اوروں کے بھی قابل نہ رہنے دیں، ہمیں پھر مکمل اس کے ساتھ قطع تعلق کرنی چاہیے۔ ہہی پھر ’’ریختہ کے ساتھ انصاف‘‘ ہوگا۔۔ آپ لوگ سوچیں گے کہ میں لیکچر اردو کی درستگی پہ دے رہا ہوں اور خود اپنی اردو ہی انگلش زدہ ہے۔ تو بات یہ ہے کہ میں تو خود اس بارے میں Confusion کا شکار ہوں کہ میں کونسی اردو استعمال کروں ’’انگلش والی اردو‘‘ یا ’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ ۔ لیکن میرا مقصد چونکہ اپنا نظریہ دورِ حاضر کے لوگوں تک پہنچانا تھا،تو آجکل اگر آپ غور کریں تو پاکستانی Educated عوام ’’انگلش والی اردو‘‘ (جس میں انگلش کے الفاظ کثرت سے شامل ہوتے ہیں) کو سمجھتے اور بولتے ہیں بمقابلہ ’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ کے(جس میں عربی و فارسی کے خالص الفاظ کا بھر مار ہو)۔ اس لئے میں نے آ پ لوگوں تک اپنا نظریہ پہنچانے کے لئے ’’انگلش والی اردو‘‘ کا استعمال کیا اور کرتا ہوں۔ اگر میں ’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ یا ’’مرزا غالب کی اردو‘‘ بولتا تو اسے سمجھنا پھر عام لوگوں کی ذہنی استطا عت سے بالا تر ہوتا۔ انگلش کا کوئی مشکل لفظ سامنے آجائے تو تقریباََ موبائل تک میں لوگوں کے پاس ڈکشنریاں موجود ہوتی ہیں اور جلدی معنی چک کرلےتے ہیں،لیکن اگر’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ یا ’’غالب کی اردو‘‘ میں بولتاتو اس کے الفاظ کی معنی چک کرنا ،انگلش کی نسبت بہت تکلیف دہ ہوتا۔
اصل الفاظ بولتے ہیں۔ اردو کا یہ روپ پیش کرتے ہیں۔ ان Westren Minded لوگوں کی طرف سے اردو کےاس روپ کو رد کرنے کے لئے جو دوسری جماعت سامنے آتی ہے تو وہ ہے دینی جماعت ۔ دینی طبقہ کہتا ہے کہ اردو کا یہ روپ غلط ہے،تو وہ جو خود اردو کا روپ پیش کرتے ہیں اس میں 70% عربی زبان کے الفاظ شامل ہوتے ہیں یا کبھی کبھار فارسی الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور کچھ 30%ہی نارمل اردو کے الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں۔اکثر اردو کے Pronounciationکالہجہ بھی عربی وفارسی کے طرز پر ہوتا ہے ان کے ہاں۔ پس اردو زبان کا الگ تشخص کوئی قائم ہونے ہی نہیں دے رہا۔ Westren Minded لوگ یہ جواز پےش کرتے ہیں کہ اردو تو مرکب ہے مختلف زبانوں کا،سو اس میں آج بھی مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جگہ دینے کی Potential موجود ہے۔ اس کا رستہ کوئی نہیں روک سکتا کہ اردو میں کوئی اور لفظ استعمال ہو۔ اور پھر انگریزوں نے اور انگلش زبان نے برصغیر میں کافی وقت گزاراہے۔مل جل کر انگریز یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رہے ہیں۔ دینی طبقہ یہ جوازپیش کرتا ہے کہ محمد بن قاسم کا ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد،ان کے بہادری کا چرچہ اور بہترین اخلاق کی وجہ سے ہندوستانیوں میں عربوں کا اور عربی زبان کا اثرورسوخ بڑھ گیا۔ پھر مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ اس عرصے میں ہندوستان کی قومی زبان زیادہ تر فارسی ہی رہی۔مسلمانوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے عربی زبان کا بھی مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے کی وجہ سے اثرورسوخ برقرار رہا۔ لہٰذا اسی وجہ سے اردو زبان کا ایک بڑا حصہ عربی اور فارسی زبان کا اس میں داخل ہونے سے بنا ہے۔۔۔۔۔Westren Minded لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئیے کہ ہر زبان جب شروع میں بنتی ہے تو ظاہر ہے اس میں دوسری مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہو کر ہی اسے بناتے ہیں ،ایسی تو دنیا میں شائد 5% ہی زبانیں ہونگیں جو مکمل طور پر بذات خود اپنے الفاظ پیدا کر کے وجود میں آئیں ہوں۔ لیکن جب ایک زبان بذات خود ایک الگ زبان کی حیثیت کے طور پر دنیا کے سامنے آجاتی ہے تو پھر وہ دوسری زبانوں کے الفاظ کے لئے Block ہوجاتی ہے۔ پس انگریز جس وقت ہندوستان پر مکمل چھا گئے اس وقت اردو ایک مکمل الگ زبان کے طور پر سا منے آچکی تھی۔ پس اب اس میں انگلش کے الفاظ شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔اور دینی طبقے کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ اردو میں اگر محمد بن قاسم کی عربی اور جلال الدین اکبر (مغل اعظم) کی فارسی شامل ہے تو اس میں راجہ داہر اور جودا اکبر کی ہندی بھی اتنی ہی شامل ہے۔ اسی طرح اس میں قدیم پنجابی زبان بھی شامل ہے ۔ ظہیرالدین بابر کی ترکی زبان بھی اس میں شامل ہے۔لیکن ان ساری زبانوں کے الفاظ کا اردو میں شامل ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آج بھی اگر کسی کا جی چاہے تو ان زبانوں میں سے کسی بھی زبان کا نیا لفظ لا کر اردو میں استعمال کرتا پھرے اور دعویٰ کرے کہ اردو میں چونکہ یہ زبان شامل ہے پس اس کا ہر لفظ اردو کا لفظ کہلایا جاسکتا ہے ، نہیں ایسا ہر گز نہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تواس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اردو زبان نامی کوئی زبان حقیقت میں موجود ہی نہیں ہے۔ اردو جس وقت دنیا میں ایک الگ زبان کے طور پر سامنے آگئی تھی ،اس وقت یہ جن الفاظ سے مل کر بنی تھی ،وہی اس زبان کے الفاظ ہیں۔اب یہ باقی الفاظ کے لئے Block ہے۔کوئی اپنی چاہ کے مطابق اس میں اب نئے مترادف الفاظ شامل نہیں کرسکتا ۔ہاں البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جس کے لئے اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں سرے سے کوئی لفظ موجود ہی نہ ہو،تو اس کے لئے کوئی لفظ تجویز کرنا جائز ہے لیکن اس کا حق بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہے، یہ کام صرف اردو ادب کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی کا ہے۔ جس کا جی چاہے وہ اپنی مرضی کے الفاظ زبان میں شامل کرتا پھرے،اس سے زبان کا تشخص اور حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ ایسی سرے سے کوئی زبان ہوتی ہی نہیں جو ہر دور میں مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر آنے کے لئے رستہ دے رہی ہو۔ کم از کم کسی غیرت مند قوم کی زبان تو ایسی نہیں ہوتی۔ پس کسی بھی طبقے کو اردو زبان Personalize یا Customize کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ نہ مسلمانوں کے مذہبی طبقے کو، نہ ہندوؤں کو، نہ مغرب پرست لوگوں کو۔ اردو زبان کا ایک الگ تشخص برقرار رکھا جائے۔۔۔۔ رہا مسئلہ اردو کا عملی طور پر بطور قومی زبان نفاذ کا،تو ہم وہ بد قسمت قوم ہے کہ آج تک ہم اپنی قومی زبان کے حوالے سے Confusion کا شکار ہیں۔ ہم میں اتنی Decision Making Power ہی نہیں کہ ہم اپنے لئے قومی زبان کا انتخاب کرسکے۔ اگر اردو ہماری قومی زبان ہے تو انگلش کیوں یہاں پہ اردو سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اہمیت تو بہت بڑی بات ہے ،انگلش بطور زبان آخر رائج ہی کیوں ہے۔Westren Minded لوگ اس کی یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ ہماری قومی زبان تو بے شک اردوہی ہے ، انگلش تو اس وجہ سے رائج ہے یہاں کہ یہ ہماری Official language ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی غیرتی اور Standard اقوام ہیں ان کی قومی اور آفیشل زبان الگ الگ نہیں ہوا کرتی۔ آفیشل زبان نامی کوئی زبان ہوتی ہی نہیں ہے ان کے ہاں۔ جو ان کی قومی زبان ہوتی ہے وہی ان کی آفیشل زبان بھی ہوتی ہے۔پس ہمیں اس منافقت اور دوہرے پن کی Situation سے نکل کر صاف فیصلہ کرنا چاہئیے کہ ہماری قومی زبان کونسی ہونی چاہئیے۔ باقاعدہ ووٹنگ ہونی چاہیے اس پہ، اگر زیادہ لوگ اردو کے حق میں ووٹ دیں تو انگلش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے اور مکمل طور پر صحیح معنوں میں اردو کا نفاذکرنا چاہیے اور اگر زیادہ لوگ انگلش کے حق میں ووٹ دیں تو اردو کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر مکمل طور پر انگلش کا نفاذ کرنا چاہیے۔ اعمال کے لحاظ سے تو ہم پہلے ہی سے منافقت سے کام لےنے کے ہم عادی ہیں ،یہ عادت چھوڑنا تو ہمارے بس کا کام ہے ہی نہیں،لیکن کم سے کم زبان کے معاملے میں تو منافقت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ہماری قومی زبان ایک اور Well Defined ہونی چاہیے۔ اردو زبان کو اگر ہم مکمل طورپر 100% اپنا نہیں سکتے تو بجائے اس کے کہ ہم اس کا حلیہ بگاڑنے میں Contribution کر کے اس کو اوروں کے بھی قابل نہ رہنے دیں، ہمیں پھر مکمل اس کے ساتھ قطع تعلق کرنی چاہیے۔ ہہی پھر ’’ریختہ کے ساتھ انصاف‘‘ ہوگا۔۔ آپ لوگ سوچیں گے کہ میں لیکچر اردو کی درستگی پہ دے رہا ہوں اور خود اپنی اردو ہی انگلش زدہ ہے۔ تو بات یہ ہے کہ میں تو خود اس بارے میں Confusion کا شکار ہوں کہ میں کونسی اردو استعمال کروں ’’انگلش والی اردو‘‘ یا ’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ ۔ لیکن میرا مقصد چونکہ اپنا نظریہ دورِ حاضر کے لوگوں تک پہنچانا تھا،تو آجکل اگر آپ غور کریں تو پاکستانی Educated عوام ’’انگلش والی اردو‘‘ (جس میں انگلش کے الفاظ کثرت سے شامل ہوتے ہیں) کو سمجھتے اور بولتے ہیں بمقابلہ ’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ کے(جس میں عربی و فارسی کے خالص الفاظ کا بھر مار ہو)۔ اس لئے میں نے آ پ لوگوں تک اپنا نظریہ پہنچانے کے لئے ’’انگلش والی اردو‘‘ کا استعمال کیا اور کرتا ہوں۔ اگر میں ’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ یا ’’مرزا غالب کی اردو‘‘ بولتا تو اسے سمجھنا پھر عام لوگوں کی ذہنی استطا عت سے بالا تر ہوتا۔ انگلش کا کوئی مشکل لفظ سامنے آجائے تو تقریباََ موبائل تک میں لوگوں کے پاس ڈکشنریاں موجود ہوتی ہیں اور جلدی معنی چک کرلےتے ہیں،لیکن اگر’’عربی وفارسی والی اردو‘‘ یا ’’غالب کی اردو‘‘ میں بولتاتو اس کے الفاظ کی معنی چک کرنا ،انگلش کی نسبت بہت تکلیف دہ ہوتا۔
No comments:
Post a Comment