"روح کی موجودگی کے دلائل"
تحریر : ارشد خان آستِکؔ؛ اردو شاعر و کالم نگار
خالق ِ کائنات ،خدا اور رب اللہ جل شانہ کی دیگر بیش بہا نشانیوں کی طرح "روح" بھی ایک کھلی نشانی ہے۔ روح جس کو سائنسی اصطلاح میں Vital Force یعنی وہ قوت جس کی وجہ سے حیات ممکن ہوتی ہے،ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل حصوں میں بحث کرتا ہوں:۔
1)جاندار اشیا کی تخلیق کے حوالے سے،جیسا کہ بائیولوجی کی تاریخ میں رقم ہے، جس کاذکر نویں جماعت کی بایئولوجی کی کتاب میں بھی ہے کہ دو مکاتب فکر کے گروہ تھے۔ ایک مکتبہ فکر والے کو Abiogenesis کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو Biogenesis کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ Abiogenesis کا عقیدہ تھا کہ تمام جاندار اشیا خود بخود بے جان اشیا سے وجود میں آچکے ہیں،جبکہBiogenesis کا خیال تھا کہ جاندار شے صرف جاندار سے ہی وجود میں آتا ہے۔ اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے کے لئے دونوں گروہوں کے درمیان ایک عرصے تک تجربات جاری رہے۔ پھر حتمی طور پر Louis Paster کے 1864 میں کئے گئے تجربات کو متفقہ طور پر سائنسدانوں نے تسلیم کیا جس میں Abiogenesis کے نظریے کو غلط ثابت کیا گیا جس کے بعد Louis Paster نے باقاعدہ کہا کہ زندگی کا خود بخود بے جان اشیا سے وجود میں آنا محض ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ گویا سائنس نے تسلیم کیا کہ جاندار اشیا صرف جانداروں سے ہی وجود میں آتے ہیں،بے جان چیزوں سے وجود میں نہیں آسکتے۔ بالفاظ دیگر زندگی ہی زندگی کو جنم دیتی ہے۔ آج تک Biogenesis بائیولوجی کا ایک "اصول"، یعنیPrincipleہے۔ واضح رہے کہ سائنسی اصطلاحات میںPrincipleآخری مضبوط ترین بیان ہوتا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز Observation سے ہوتا ہے،پھر Hypothesisہوتا ہے جو کہ اگر تجربے سے پاس کرنے کے بعد درست ثابت ہوا توTheory بن جاتا ہے،Theoryاگر صدیوں تک غلط ثابت نہ ہوئی تو Lawبن جاتا ہے،اب Lawجب صدیاں گزرنے کے بعد بھی غلط ثابت نہ ہو تو پھر یہ Principleکا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔گویاPrinciplesسائنس کے ستون ہوتے ہیں۔ چونکہ Biogenesis ایک سائنسی اصول یعنیPrincipleبن گیا،اب ارتقا پرست سائنسدانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ اسے تسلیم کرے،چنانچہ تسلیم تو کیا اسے لیکن ایک بات کا اضافہ کر کے کہ بے جان اشیا سے زندگی کا آغاز کائنات میں صرف ایک بار ہوا ہے،اس کے بعد دوبارہ اب یہ نہیں ہوگا کبھی بھی۔اس کی کوئی سائنسی ثبوت ان کے پاس نہیں ہے،بس ایک عقیدہ ہے کہ کائنات میں جانداروں کا آغاز سب سے پہلے اتفاقی طور پر ایک زندہ پروٹین کے وجود میں آنے سے ہوا۔ ان کو یہ بھی پتا ہے کہ مخالفین بھی اگر اس کو مان نہیں سکتے تو اس کو رد بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ اس وقت وہاں کون موجود تھا بھلا۔ تا ہم ایسی باتیں کرتے ہوئے یہ ارتقا پرست سائنسدان یہ بھول جاتے ہیں کہ سائنس ہر اس بات پہ یقین رکھتا ہے جو بار بار تجربے سے پاس ہوسکتی ہو،اور اس کا نتیجہ بار بار اخذ کیا جاسکتا ہو۔مثال کے طور پر ہائیڈ روجن اور آکسیجن دس سال پہلے ملے تو بھی پانی بنائیں گے،دس سال بعد ملے تو بھی پانی بنائیں گے،دن کو ملے تو بھی پانی بنائیں گے،رات کو ملے تو بھی پانی بنائیں گے۔ سائنس ذاتی خیالات پر یقین نہیں رکھتا،جو انسان کہتا ہے،اسے ثابت بھی کرنا پڑتا ہے۔ آج تک دنیا کے کسی بھی کونے سے بے جان اشیا سے جاندار کے قدرتی طور پروجود میں آنے کی کوئی سائنسی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے،نہ ہی کوئی سائنسدان اپنے تجربے سے ایسا کچھ ثابت کر پایا ہے۔ بالفاظ دیگر Abiogenesis کا نظریہ درست ثابت نہیں ہوچکا ہے۔ گویا بائیولوجی کاایکPrincipleیعنی Biogenesis صد فی صد نظریہ ارتقا (جو کہ صرف ایک theory یا بعض کے نزدیک hypothesis تک کہا جاتا ہے اسے جو کہ دونوں principleسے درجے میں کم ہیں)کے شروع والے نکتے کے ہی مخالف ہے کہ ایک جاندار پروٹین اتفاقاََ بے جان اشیا سے وجود میں آیا۔ تو جس کتاب کا حرف اول ہی غلط ہو،اس سے آگے کیا درست معلومات کی توقع کی جاسکتی ہے۔۔۔
۔۔۔
2) سائنسدانوں کو Basic and Eseential Bioelements، یعنی وہ اجزا جس سے جسی جاندار کا وجود بنا ہو اور نشوونما کر رہا ہو، کا بھی مکمل لسٹ معلوم ہے،پھر بھی لیبارٹری میں ان اجزا کو اکھٹا کیا جاتا ہے تو اس سے کوئی جاندار وجود میں نہیں آتا۔ یہاں تک کہ بے جان سہی مگر مصنوعی گوشت بھی کامل حالت میں ابھی تک تیار نہیں ہوسکا ہے۔بعض ملحدین Genetic Engeneering کے نیم ملا بن کر کلوننگ ،ٹیسٹ ٹیوب بے بیز اور جینز میں مصنوعی تبدیلیاں لانے کو ہی زندگی کا تخلیق سمجھتے ہیں،حالانکہ سائنس کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جین تو پہلے سے ہی ایک زندہ شے یعنی سِل کا حصہ ہے،تو اب تھوڑے سے خراب جین کو ریپیئر کرنا یا انسان کی ذاتی زیادہ خراب یا مرے ہوئے جین کو نکال کر اس کی جگہ دوسرے انسان کی جین لگانا زندگی کی تخلیق کیسے ہوگئی بھئی؟۔ گو کہ بعض دعووں کے مطابق مصنوعی جین بھی بنانے میں سائنسدان کامیاب ہوچکے ہیں جو کہ جب سل میں داخل کرائے جاتے ہیں تو ٹھیک ٹھاک قدرتی جین کی طرح پرورش بھی کرتے ہیں اور تقسیم ہو کر نسل بھی بڑھاتے ہیں؛اگر ایسا ہو بھی پھر بھی جین کی تخلیق کو زندگی کی تخلیق بہرحال نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جین جب جاندار کے خلیئے کے اندر ہو تو یہ تقسیم ہو کر اپنی نسل بڑھا سکتا ہے اور پرورش بھی کرسکتا ہے چونکہ یہ جاندار شے کی نشانی ہے ؛اس لئے اس وقت جین کو جاندار کہا جاسکتا ہے۔جونہی یہ جین سل سے نکالا جاتا ہے یہ مندرجہ بالا قسم کی خاصیتیں یعنی پرورش کرنا اور تقسیم ہوکر نسل بڑھانا کھو دیتا ہے تو لہذا اس وقت اسے بے جان کہا جائے گا۔یہ خصوصیات وائرس اور جین میں مشترک ہیں۔اب جس طرح وائرس کو اپنے انہی خصوصیات کی بنا پر جاندار تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ جانداروں کے پانچ کینگڈمز میں سے کسی کینگڈم میں یہ شامل نہیں ہے؛تو اسی طرح جین کو بھی جاندار نہیں سمجھا جاسکتا۔ جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ ایک حالت میں ہی سہی مگر جین کو جاندار تو مانا جاتا ہے اور جین سائنسدان بنا سکتے ہیں مصنوعی طور پر تو یہ گویا سائنس زندگی تخلیق کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو عرض ہے کہ جین جاندار کے خلئیے کے بغیر جاندار نہیں کہلایا جاسکتا وہ خلئیے کی جانداری کے بل بوتے پر ہی جاندار ہوتا ہے۔ وہ خلئے کی روح؛زندگی یا جان استعمال کررہا ہوتا ہے۔ اور خلئے میں جان پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ جونہی یہ خلئے سے باہر نکلے تو نہ اس میں میٹابولک ایکٹیویٹیز ہوتی ہیں؛نہ وہ گروتھ کرتا ہے؛نہ ریپلیکیشن؛ اور یہ بے جان چیز کے خصوصیات ہیں۔ جین اپنے آپ کو جاندار بنانے کے لئے کسی جاندار کے خلئے میں پہلے سے موجود جلئے کی روح کو ہی استعمال کرتا ہے۔ایسا کوئی جین یا کوئی بھی چیز سائنسدان بے جان اشیاء سے نہیں بنا چکے ہیں کہ بغیر جاندار کے جسم میں اسے انٹرو ڈیوس کرائے یا بغیر کسی جاندار سل کے ساتھ اسے جوائن کئے ؛ وہ گروتھ اور ریپلیکیشن کرسکتا ہو۔ایسا جس دن ہوا تو یہ بایو لوجی کے ناقابل شکست اصول biogenesis کا رد ہوگا۔یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہوگی کہ کسی گمنام ویب سائٹ کے کسی گمنام پیج پر شائع ہو بلکہ دنیا کے چھوٹے بڑے تمام خبر رساں ادارے اس خبر کو نشر کریں گے۔۔پوری دنیا میں یہ خبر جنگا کی آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ سائنس کی دنیا میں انقلاب آجائے گا اور انقلابات ڈھکے چھپے نہیں ہوتے۔۔۔اسی طرح کلوننگ کے عمل میں بھی بے جان چیزوں سے تو کوئی جاندار نہیں بنتا، فی میل کے جاندار egg cell or ovumمیں میل کے بدن کے کسی جاندار سل ِ کے جاندار نیوکلیس کو داخل کیا جاتا ہے۔یہی معاملہ ٹیسٹ ٹیوب بے بیز فارمیشن کا بھی ہے۔ جس میں جاندار سپرم اور جاندار اووم کو ملایا جاتا ہے،کمال صرف ماں کے پیٹ کی بجائے ایک مصنوعی پیٹ مہیا کرنا ہوا،نہ کہ جان یا حیات کی تخلیق،جان تو سپرم اور اووم میں پہلے سے ہی ہوتی ہے۔۔۔
3) جو لوگ سمجھتے ہیں کہ موت اس وجہ سے واقع ہوتی ہے کہ جسم کا کوئی حصہ Damage ہوجاتا ہے،اس سے عرض ہے کہ اگر محض یہ وجہ ہو تو پھر تو اگر وہ Damagedحصہ Repareہوجائے پھر تو مردے کو زندہ ہونا چاہیئے تھا؟ اگر واقعی موت کی کیفیت محض ایک حصہ کے Damage ہونے کی وجہ سے طاری ہے۔ اور اگر اس حصے کی مرمت کرنے کے بعد بھی مردہ زندہ نہ ہو تو سمجھ لینا چاہیے،کہ اس حصے کے Damageہونے نے گو کہ موت کو بلانے میں مدد کی،لیکن موت کی کیفیت طاری اس حصے کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے نہیں،بلکہ حیاتی قوت Vital forceکے جسم کو چھوڑ جانے کی وجہ سے ہے،جس کو با الفاظ دیگر روح کا چھوڑ جانا ہی کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب کوئی بندہ گردن دباکر سانس کی نالی توڑی دیر کے لئے بند رکھنے یا منہ اور ناک کو بند رکھنے کی وجہ سے مرجاتا ہے تو اگر موت واقع ہونے کے لئے بدن کے کسی حصے کو نقصان پہنچنا ہی شرط تھا تو اس قسم کی موت میں تو بدن کے کسی حصے کو کوئی فیزیکل نقصان نہیں پہنچتا،مثلاََ سانس کی نالی کو دبا کرکچھ دیر کے لئے بند رکھنے کے بعد چھوڑ دینے سے نہ تو نالی کٹتی ہے،نہ اس کے اندر کی رگیں،نروز وغیرہ کٹتے ہیں۔ اسی طرح ہرٹ اٹیک کے دوران بھی ہرٹ صرف فیل ہی ہوجاتا ہے،پھٹتا تو نہیں ہے،باقی بھی بدن کو فیزیکل نقصان نہیں پہنچتا۔ جس طرح ہم ایک زندہ انسان کے خراب ہرٹ کو ہٹا کر اس میں نیا یہاں تک کہ مصنوعی ہرٹ لگا سکتے ہیں تو پھر ہرٹ اٹیک کی وجہ سے مرنے والے شخص میں کیوں نیا صحیح ہرٹ نہیں لگاسکتے کہ وہ بلڈ سرکولیشن میں فیل نہ ہوتا ہو؟۔۔۔پس ثابت ہوتا ہے کہ موت اس لئے واقع ہوجاتی ہے کہ بدن کو کوئی مخصوص Vital force یعنی حیاتی قوت چھوڑ جاتی ہے، جسے ہم بدن کو لاکھ ریپیئر کر کے بھی نہیں لوٹا سکتے۔پس موت بدن کے کسی حصے کے محض Damage ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ جانداروں میں پائے جانے والے Vital force کا ان کے بدن کا ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ سے ہی واقع ہوتی ہے،جس کے بعد آپ Damage حصے کو لاکھ چاہے ریپیئر کریں لیکن بدن زندہ نہیں ہوسکے گا۔ اسی Vital force کو بالفاظ دیگر روح کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
4)ایک برطانوی ٹیم نے چار سالوں تک دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کا مطالعہ کیا جس کے دوران ان کے تجربات کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔
مطالعے کے مطابق تقریباً 40 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ جب انہیں طبی طور پر مردہ قرار دے دیا گیا اس کے باوجود انہیں کسی نہ کسی صورت میں ’شعور‘ حاصل تھا۔
اس وقت ماہرین کا ماننا ہے کہ دل کی حرکت رک جانے کے 20 سے 30 سیکنڈز کے اندر ہی دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے اور اس کے بعد کسی بھی قسم کا ’شعور‘ ہونا ممکن نہیں۔
تاہم اس نئے مطالعے میں سائنسدانوں نے ایسے شواہد فراہم کیے جہاں مریضوں نے طبی موت کے تین منٹ بعد تک حقیقی زندگی کے تجربوں کو شیئر کیا اور وہ موت کے بعد اس موقع پر ہونے والے واقعات کو بالکل درست انداز میں بیان کرنے میں کامیاب رہے۔ریسرچ کے سربراہ اور اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیم پارنیا کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے مریضوں کے تجربات خیالی تصورات پر مبنی ہوتے تھے۔تاہم ایک شخص نے ’انتہائی قابل اعتماد‘ تجربہ بیان کیا جس کے دوران ڈاکٹر اور نرسیں انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔مریض کا کہنا تھا کہ وہ کمرے کے کنارے سے اپنے آپ کو زندہ کرنے کی کوششوں کا مشاہدہ کررہا تھا۔ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے پارنیا کا 57 سالہ سوشل ورکر کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ دل کے رک جانے کے بعد دماغ کام نہیں کرسکتا، لیکن اس معاملے میں شعور موت کے تین منٹ بعد تک برقرار رہا۔انہوں نے بتایا کہ اس شخص نے اس کمرے میں ہونے والی تمام سرگرمیاں بیان کیں تاہم اہم ترین بات انہوں نے مشینوں کی دو ’بلیپ‘ کی آوازوں کے حوالے سے بتائیں جن سے ہمیں اندازہ ہوا کہ موت سے لیکر واپس زندہ کیے جانے کا وقت تین منٹ تھا۔پارنیا کے مطابق ان کی معلومات بظاہر کافی قابل اعتماد ہیں اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا وہ واقعی اس کمرے میں ہوا تھا۔پارنیا کے مطالعے میں برطانیہ، امریکا اور آسٹریا کے 15 ہسپتالوں کے 2060 مریضوں کو ریسرچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح
جرمنی کے ماہرین نفسیات اور محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے تجربات سے ثابت ہوگیا ہے کہ موت کے بعد بھی زندگی جاری رہتی ہے اگرچہ اس کی نوعیت ہماری دنیا کی زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔یہ تجربات جرمن کی ٹیکناچی یونیورسٹیٹ ( Techniche Universtiat ) میں کارڈیو پلونری ریسی ٹیشن مشین کی مددسے کیے گئے جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 944 افراد نے رضاکارانہ طور پر شرکت کی۔ تجربات میں شامل افراد کو ادویات کی مدد سے 20 منٹ کے لیے کلنیکلی موت کی کیفیت میں پہنچایا گیا ۔ یہ کیفیت ایسے ہی ہے جیسے کسی کی حقیقی موت واقع ہوجائے لیکن اس کی خاص بات ہے کہ سی پی آر مشین اور ادویات کی مدد سے ان کی زندگی دوبارہ بحال کی جاسکتی ہے۔
تجربات میں شامل سب افراد نے ملتے جلتے قریب المرگ تجربات بیان کیے جن میں اوپر اٹھ جانے بہت سکون اور راحت محسوس ہونے اور جسم مردہ ہونے کے باوجود سب احوال کا مشاہدہ کرنے کی کیفیات شامل ہیں ۔ تحقیق کے سربارہ ڈاکٹر برتھولڈایکرمین کا کہناتھا کہ ان تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ جسم مردہ ہونے سے زندگی کا اختتام نہیں ہوتا بلکہ انسان ایک لطیف حالت اور کیفیت میں چلاجاتا ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔۔۔
جہاں تک "روح کی موجودگی" کا تعلق ہے تو مندرجہ بالا تمام نکات سے روح کی موجودگی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہاں اب یہ الگ بحث ہے کہ روح کی شکل کیسی ہے؟ روح کا رنگ کیسا ہے؟ روح کی قد کتنی ہوگی؟ روح کی وزن کتنی ہوتی ہے؟روح کو ہم دیکھ کیوں نہیں سکتے؟ روح کو ہم محسوس کیوں نہیں کرسکتے؟ نکلتی ہوئی روح کو ہم پکڑ کیوں نہیں سکتے؟۔۔۔۔۔۔یہ سوالات ایک الگ بحث ہے،اگر ان کے جوابات نہ بھی دئیے جائے تو اس سے روح کے وجود کی نفی نہیں ہوتی۔یا روح کی موجودگی ثابت ہونے کے بعد کوئی منکر اس قسم کے سوالات کو روح کی نفی کے دلائل سمجھنے کی خوش فہمی میں نہ رہے۔اہم یہ نہیں کہ روح کیسا ہے؟ اہم یہ ہے کہ روح موجود ہے کہ نہیں۔ جب موجود گی ثابت ہوتی ہے جو کہ مذہب کا موقف تھا،تو آگے بھی اس سلسلے میں مذہب کی ہی ماننی چاہیئے۔
جو کہ مذہب کا موقف تھا،تو آگے بھی اس سلسلے میں مذہب کی ہی ماننی چاہیئے۔
ریفرنسز درج ذیل ہیں:-
No comments:
Post a Comment