"آپس میں بھائی بھائی یا قصائی قصائی؟"
تحریر ؛ ارشد خان آستک۔ اردو شاعر و کالم نگار
میں مانتا ہوں کہ ایران پس پردہ امریکہ کا یار ہے لیکن سعودی نے کتنا نقصان پہنچایا ہے امریکوں کو؟ کونسی جنگ لڑی ہے آج تک امریکہ کے خلاف؟ ایران تو پس پردہ یار ہے؛ سعودی تو علی الاعلان یار ہے۔ ایران تو پس پردہ اسرائیل کا یار ہے سنی ملک مصر اور کئی ایک سنی ممالک کا پہلے سے علی الاعلان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں جبکہ ایک اور سنی ملک ترکی کے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار ہوئے ہیں۔ چھپ کر غلط کام کرنے والا میرے خیال سے غلط کام سب کے سامنے کرنے والے کی نسبت پھر بھی اچھا ہوتا ہے کیونکہ اس میں حیا تو ہوتی ہے۔بہرحال مطلب یار شیعہ اور سنی دونوں ہی ہوئے اہل صلیب کے۔ تو پھر کیا یہ مضحکہ خیز نہیں کہ ایک دوسرے پر اس وجہ سے لعن طعن کیا جائے کہ وہ امریکہ کا یار ہے؟ پشتو میں ایک محاورہ ہے "کوزہ غلبیل تہ وئ چے تا کے دوہ سوری دی"۔ اس حمام میں دونوں ہی ننگے ہیں۔ جب تک ہم اللہ کی بجائے امریکہ اینڈ کمپنی کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے اور ان کے اشاروں پہ ناچیں گے تو مار ہی کھائیں گے۔ جو کچھ مدینہ منورہ میں ہوا؛ جو عراق اور شام میں ہورہا ہے؛ سب ہمارے اعمال کے نتائج ہیں اور اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہود و نصارٰی آپ کے دوست نہیں ہوسکتے۔ شیعہ کو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں لڑو سنیوں کے خلاف اور سنیوں کو کہتے ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں لڑو شیعوں کے خلاف۔یہ وہ کام ہے کہ چور کو کہا جائے کہ آج مکان خالی ہے اور مالک مکان کو کہا جائے کہ بھئ بیدار رہنا آج تمھارے گھر چور آنے والا ہے۔ دونوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنا اور دونوں کو آپس میں لڑوانا بھی۔ جس آگ نے سعودی عرب کو لپیٹ میں لے لیا ہے یہ سعودی کا امریکی ایما پر یمن کے شیعوں پر بمباریوں اور عراق و شام میں شیعوں کا قلع قمع کرنے کے لئے داعش جیسی سنی انتہا پسند جماعت کی معاونت کا نتیجہ ہے۔کانٹے بووگے تو کانٹے ہی مقدر ہوگا۔ میں مدینہ منورہ حادثے کی ذمہ دار شیعہ برادری کو نہیں سمجھتا بلکہ سعودی کا شیعہ مخالف پالیسیوں اور کاروائیوں کو سمجھتا ہوں۔پتھر کا جواب اگر اینٹ نہ ہو تو پتھر نے تو ہونا ہی ہے۔کوئی بے وقوف ہی پتھر کے بدلے پھولوں کا ہار پہنائے جانے کی توقع رکھ سکتا ہے۔ آج کا مسلمان قوت بازو کفار کی بجائے اپنے ہی مسلمانوں کو کفار کے ایجنٹ قرار دے کر ان پر ہی آزماتے ہیں۔کچھ کفار کی خوشنودی کے لئے اور ان کی چمچہ گیری میں ایسا کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ اس وجہ سے ایسا کر رہے ہوتے ہیں کہ دور مضبوط قلعوں اور مورچوں میں قیام پذیر اغیار کی نسبت اپنے گھر میں رہنے والے اپنوں پر غصہ آسانی سے اتارا جاسکتا ہے ؛ اور آسانی سے نمبرات بنائے جاسکتے ہیں اور خود کو بہادر ظاہر کیا جاسکتا ہے۔اگر واقعی کوئی مسلمان ہے بھی کفار کا ایجنٹ تو کفار کو کچھ کہنے کی بجائے اسے کچھ کہنے کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک طرف کسی پراڈکٹ کو ختم کرنے کے لئے پراڈکٹ کو دریا میں پھینکا جارہا ہو اور جلایا جارہا ہو تو دوسری طرف پراڈکٹ کی فیکٹری کو کام کرنےدیا جارہا ہو۔ کفار یعنی فیکٹری موجود ہوں اور ہم ان سے عداوت رکھنے اور ان کا رستہ روکنےکی بجائے ان سے یاریاں نبھا رہے ہوں اور آپس میں لڑ رہے ہوں تو پراڈکٹ یعنی ایجنٹس(بقول ہمارے) تو بنیں گے ہی۔پراڈکٹ ناپید فیکٹری کو لگام دینے سے ہی ہوتا ہے؛ نہ کہ اس طریقے سے کہ ادھر فیکٹری مسلسل پراڈکٹ بنا رہی ہو اور ادھر بندہ ایک ایک پراڈکٹ کے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑ کر تباہ کر رہا ہو۔کاش سعودی عرب 35 یا 40 ممالک کا اسلامی اتحاد یمن کے شیعوں پر حملے کرنے کی بجائے امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تشکیل دیتا تو آج مدینہ منورہ کی طرف کفار میلی آنکھ سے دیکھ بھی نہ پاتے؛ وہاں بد امنی پھیلانا تو دور کی بات ہوتی۔
تحریر ؛ ارشد خان آستک؛ اردو شاعر و کالم نگار
No comments:
Post a Comment