السلام علیکم۔ تجسس فورم میں خوش آمدید اور ویلکم۔۔۔ تجسس فورم پر آپ پا سکتے ہیں ۔۔۔ الف۔قومی اور بین الاقوامی امور سے متعلق خبریں و معلومات ، جنرل نالج اورشعر و شاعری سے متعلق مواد۔۔۔۔ب۔مختلف بہترین تجزیہ نگاروں کے خیالات پر مبنی کالم /مضامین/آرٹیکلز۔۔۔ج۔تعلیم ،درس و تدریس اورآئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سےمتعلق مواد جن میں پی ڈی ایف بکس/نوٹس،ٹیوشن وٹیوشن ٹیچرز/ٹیوٹرز،تعلیمی اداروں ،ڈیٹ شیٹس وامتحانات کے نتائج سے متعلق معلومات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔فی الحال اس فورم کا یہی ایک ہی ویب سائٹ ہے۔ مستقبل قریب میں ایک روزنامہ اخبار اور ایک ماہنامہ رسالہ بھی لانچ کرنے کا ارادہ ہے ان شا اللہ۔

Monday, July 25, 2016

’’سائنس ،الحاد(دہریت) اور مذہبِ اسلام‘‘

                               ’’سائنس ،الحاد(دہریت) اور مذہبِ اسلام‘‘
تحریر: ارشد خان آستِکؔ ( لیدبیرؔ) (اردو شاعر و کالم نگار اخبارِخیبر)

نیم ملا دوسروں کی ایمان کے لئے تو خطرہ ہوتا ہی ہے مگر دوسروں کا ایمان بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے ایمان کو بھی ظاہر سی بات ہے کہ خطرہ لاحق ہوتاہے۔ہمارے موضوع کے مطابق یہ ضرب المثل ہمارے لئے اردو کے ان الفاظ کی نسبت انگریزی والے الفاظ میں زیادہ با معنی ہے کہ
"A little knowledge is a dangerous thing"
یعنی  ’’تھوڑا علم خطرناک چیز ہے‘‘ ۔ مطلب یہ ہوا کہ

سوال :- کسی کے پاس وہ ویڈیو ہے جس میں باقاعدہ حافظ حمداللہ صاحب نے ماروی سرمد کو شلوار والی گالی دی ہو۔؟


کسی کے پاس وہ ویڈیو ہے جس میں باقاعدہ حافظ حمداللہ صاحب نے
ماروی سرمد کو شلوار والی گالی دی ہو۔؟
سوال :- کسی کے پاس وہ ویڈیو ہے جس میں باقاعدہ حافظ حمداللہ صاحب نے ماروی سرمد کو شلوار والی گالی دی ہو۔؟ گالی کے حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو سامنے لاؤ نہیں تو پھر تسلیم کرو کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔
جواب:- کچھ عاشقان فضل الرحمان کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ حافظ حمداللہ صاحب نے کوئی گالی شالی نہیں دی ہے اور کوئی دست درازی کرنے کی کوشش نہیں کی ہے؛ یہ سب ماروی سرمد کی طرف سے ان پرپیٹ سے لگائے گئے الزامات ہیں۔محض ان کو بدنام کرنے کے

میں تمہاری اور تمہاری ماں کا شلوار اتاردوں گا(جے یو آئی لیڈر حافظ حمد اللہ کی ماروی سرمد کو لایئو شو میں گالیاں اور ان پر دست درازی کی کوشش)

میں تمہاری اور تمہاری ماں کا شلوار اتاردوں گا
جو کچھ حافظ حمد اللہ صاحب نے کیا یہ ان کی تربیت کرنے والوں جن میں سر فہرست ان کے پارٹی قائد؛ اس کے بعد کچھ کے ان کے ساتذہ ؛ کچھ ان کے والدین اور کسی حد تک ان کےا ٹھک بیٹھک یعنی ان کی صحبت کے لوگوں(مغربی طرز کی سیاست و جمہوریت پسند علماء) کے شاندار اخلاق کی عکاسی تھی۔ حمد اللہ صاحب کے پیر مولانا فضل الرحمان کی جگہ کوئی سیاست سے کنارہ کش کسی خانقاہ

"کیوں موبائل اشتہار اور میرا تبصرہ"


"کیوں موبائل اشتہار اور میرا تبصرہ"
اس میں کوئی شک نہیں کہ اشتہار بنانے والے اداروں میں سے ایسے بھی ادارے ہیں جو طاغوت کےآلہ کار ہوتے ہیں اور ان کا مقصد پراڈکٹ کا اشتہار کم اور فحاشی اور غیر اسلامی ماحول کو فروغ دینا زیادہ ہوتا ہے۔ اوریا مقبول جان صاحب کا بھی میں بہت فین ہوں اور مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہر اشتہار ہی اس قدر فلسفیانہ مقصد کے تحت بنایا گیا ہو۔ میرے خیال سے کیو موبائل کے جس اشتہار کو کفر اور اسلام کا مسلہ سمجھا جا رہا ہے وہ ہر گز اتنے گہرے منصوبے کے تحت نہیں بنایا گیا ہے؛ کرکٹ کھیلنا لڑکیوں کے لئے جائز ہے یا نہیں؛ یہ بات کیو موبائل کے منیجر کو کیا پتا؛یہ تو علما کا مسلہ ہے؛ اور پھر آج کل غامدی جیسے لوگ بھی عالم بنے ہوئے ہیں جو ہو حرام کام کو حلال کرانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ایسے میں جو بندہ خود دین کا ہر زاوئے سے متعلق مطالعہ نہ رکھتا ہو وہ کیا جانے کہ کیا حرام ہے کیا حلال ہے۔ وہ یا تو ذاتی رائے پر ہی حلال و حرام کے فیصلے کرے گا یا پھر غامدیوں کی اندھی تقلید کرے گا۔اب کیو موبائل کا منیجر بھی کوئی دینی عالم تھوڑی ہوگا؛ ایک عام دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والا بندہ ہی ہوگا۔جسے جو اچھا لگا ہے اسے جائز دکھایا گیا ہے۔لڑکیوں کا کرکٹ کھیلنا اس نے اپنی معصومیت؛ سادگی اور کم علمی کی وجہ سے ہی جائز دکھایا ہوگا۔ اور اشتہار کا مرکزی خیال ہر گز لڑکیوں کا کرکٹ کھیلنا جائز قرار دینا نہیں ہے؛ اس کو تو صرف ایک مثال کے تحت لیاگیا ہے باقی اشتہار کا مرکزی خیال یہ ہےکہ بعض اوقات بزرگ غلطی پر بھی ہوسکتے ہیں۔جس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے والد صاحب مشرک تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خاندان کے کچھ بڑے مثلاً ابوجہل اور ابو لہب مشرک تھے۔کفار مکہ بھی اسی سوچ کے حامل تھے کہ بڑے غلط نہیں ہوسکتے اسی وجہ سے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شدت سے کرتے تھے کہ آپ ص ہمارے بڑوں کے دین کو غلط کہہ رہے ہیں۔تو ضروری نہیں کہ بزرگ کی بات محض اس وجہ سے درست ہو کہ وہ بزرگ ہے۔ پھر کچھ بزرگ مثلاً مندرجہ بالا قسم کے بزرگ ہٹ دھرم ہوتے ہیں جو مرتے دم تک اپنی غلط بات پر قائم رہتے ہیں جبکہ کچھ بزرگوں کو عمر کے کسی حصے میں احساس ہو جاتا ہے کہ ان کے چھوٹے حق پر ہیں۔ مثلاً کچھ صحابہ کرام رض کے والدین یا دیگر بڑے جو پہلے کافر ہوا کرتے تھے پھر بعد میں مسلمان ہوئے۔ تو اشتہار کا مرکزی خیال ہر گز بے حیائی پھیلانا ؛ نافرمانی کو فروغ دینا اور لڑکیوں کا کرکٹ کھیلنا جائز قرار دینا نہیں ہے بلکہ مرکزی خیال صرف اتناہے کہ بعض اوقات بڑے غلط بھی ہوتے ہیں لیکن چھوٹے اگر واقعی حق پر ہو اور لگن کے ساتھ حق کا مشن جاری رکھے تو محنت رنگ لے آتی ہے آخر کار اور بڑے بھی پھر قائل ہوجاتے ہیں اور ساتھ دے دیتے ہیں۔ تو لہٰذا چھوٹے اگر واقعی حق پر ہو تو انہیں ڈٹے رہنا چاہئے اور حوصلہ رکھنا چاہئے۔ بس اتنی سی ہی بات تھی۔اب رہی بات کرکٹ کاکھیلنا لڑکیوں کے لئے جائز قراردینے کی تو جیسا کہ عرض کیا کہ کیو موبائل کا منیجر کوئی مدرسے سے فارغ التحصیل مفتی نہیں ہے؛ ایک عام دنیادار آدمی ہے جس نے اپنی کم علمی اور سادگی کی وجہ سے لڑکی کا کرکٹ کھیلنے کی خواہش کو جائز سمجھا ہوا ہے۔ اس بے چارے کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ یہ اشتہار چلانے کے بعد اتنا ہنگامہ برپا ہوگا اور اسے دجال کا پیروکار declare کیا جائے گا۔اور سوشل میڈیا پر اس کے تصاویر لعنت کے ساتھ شئیر کئے جانے لگ جائیں گے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جس طرح شاعر ایک شعر کہہ دیتا ہے تو تشریح کا ماہر اس کی ایسی تشریح کرلیتا ہے کہ شاعر کا وہ شعر کہتے وقت یہ تشریح وہم و گمان میں بھی نہ آئی ہو۔ جیسا کہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شاعر جس کے اشعار نصاب میں شامل تھے کا کسی سکول کے پاس سے گزر ہوا تو اسے سنائی دیا کہ استاد بچوں کو اس کے اشعار پڑھا رہا ہے؛ اس نے کان قریب کرلی تو استاد نے جو بڑھا چڑھا کر تشریح کی وہ کہیں اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی تھی تو کلاس ختم ہونے پر استاد کے ساتھ مل کر بہت شکریہ ادا کیا اس نے کہ سر جی مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ میرے اشعار اپنے اندر اتنے گہرے فلسفہ لئے ہوئے ہیں۔ کیو موبائل کا یہ اشتہار بنانے والے بے چارے منیجر کو بھی پتا نہیں تھا کہ میرے اس عام سے اشتہار کے اندر میں سے کفر؛بے حیائی؛ نافرمانی؛ ثقافت کشی وغیرہ وغیرہ کے کتنے گہرے فلسفے تراشے جائیں گے۔

شیعہ کافریا سنی کافر،شیعہ سنی عداوت

شیعہ کافریا سنی کافر،شیعہ سنی عداوت

تحریر: ارشد خان آستِکؔ( اردو شاعر و کالم نگار)

سننے میں آ رہا ہے آجکل بھئی کہ کم و بیش34اسلامی ممالک نے فوجی اتحاد بنا لیا ہے جن میں پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی کے علاوہ بحرین،بنگلہ دیش،بینن،چاڈ،کوموروس،جبوتی،مصر،گیبون،گوینیا،آئیوری کوسٹ،اردن،کویت،لبنان،لیبیا،ملیشیا،مالدیپ،مالی،مراکش،سئیرا لیونی،صومالیہ،سوڈان،ٹوگوس،تیونیسیا،موریطانیہ،نائیجر،نائیجیریا،فلسطین،قطر،سنیگال،متحدہ عرب امارات اور یمن شامل ہیں، سننے میں آرہا ہے کہ اس اتحاد کو بنانے میں سعودی عرب نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس اتحاد ی فوج کا ہیڈکوارٹر بھی سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں ہوگا۔ اس اتحاد کا سن کر کچھ سادہ لوح مسلمان عالم اسلام کے محفوظ اور طاقتور ہونے کے خواب دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ ابھی یمن پر سعودی حملہ نہیں ہوا تھا کہ میں نے فیس بک پر ایک نیوز پیج پر سرخی پڑھی کہ"سعودی عرب نے جنگ کی تیاری شروع کی" ۔ میں اس سرخی کی تفصیل میں ابھی نہیں گیا تھا کہ ایک بات مجھے کنفرم تھی پہلے سے کہ یا تو یہ خبر مذاق ہے،یا پھر اگر واقعی سعودی عرب جنگ کرنے جا رہا ہے تو یقیناََ یہ کسی مسلمان ملک کے خلاف ہی کرے گا،سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ جنگ کسی غیر مسلم ملک کے خلاف ہو،تو جب وہ نیوز ویب سائٹ ویزٹ کر کے تفصیل پڑھ لی تو تفصیل میں وہی لکھا تھا جس کا خدشہ تھا کہ سعودی ایک مسلمان ملک یعنی یمن پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔ آج کا کوئی مسلمان ملک یا کوئی جہادی تنظیم کسی کافر ملک کے خلاف بول بھی نہیں سکتا،جنگ تو دور کی بات ہے۔گذشتہ دو یا تین دہایؤں کی تاریخ اگر آپ اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو نظر نہیں آئے گا کہ کسی اسلامی ملک نے کسی کافر ملک کو جہاد کے نام پر للکارا ہو،ہاں جب جان پر بنی ہے تو مجبوراََ مقابلہ کیا ہے جس میں شکست کھاگئے ہیں،مثلاََ عراق،لیبیا وغیرہ۔ آج کے مسلمان ممالک اور جہادی تنظیمیں بس آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے کے درپے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے وسائل بھی خرچ کئے جاتی ہیں،اسی کے لئے اتحادیں بھی بنائے جاتے ہیں۔ لہٰذا مجھے ان 34 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد سے قطعی طور پر کسی سنہرے اسلامی دور کے اآغاز ہونے اور مسلمان ممالک کوکافروں کے شر سے تحفظ حاصل ہونے کی کوئی توقع اور امید نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگ رہا کہ یہ تحاد اس لئے بنا کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مظالم سے نجات دلایا جائے،بلکہ یہ اس لئے بنا کہ کس طرح شیعہ مسلمانوں کا اثر و رسوخ ختم کیا جائے اور وقت آنے پر ان سے قوت بازوکے ذریعے نمٹا جائے، جس طرح کہ کچھ یمن میں سعودی قیادت میں ہوا،کیونکہ اآپ کو ان ممالک کی فہرست میں شیعہ ملک ایران نظر نہیں آئے گا۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ایران نے پیشکش کی تھی اس اتحاد میں شامل ہونے کی تا ہم سعودی عرب اور اس کے حامی ممالک نے مسترد کی تھی۔ عالم اسلام میں تقریباََ صرف پاکستان ہی وہ سمجھدار ملک ہے جس نے ہمیشہ شیعہ سنی مئسلے کو نہایت دانشمندی کے ساتھ ہینڈل کیا ہے جس کا مظاہرہ پاکستان ماضی میں 1988- 1980 کے"ایران عراق جنگ "کے دوران جنگ کا فریق بننے کی بجائے ایک مصالحتی ثالث بننے،اور حال ہی میں یمن پرسعودی حملے میں حصہ نہ لینے جیسے معاملات میں واضح طور پر کرچکا ہے۔ لیکن وللہ اعلم کہ پاکستان سعودی کی قیادت میں اب کے اس فوجی اتحاد میں کیسے شامل ہوگیا۔بہرحال اس اتحاد میں پاکستان اور ترکی جیسے سنجیدہ ممالک کی شمولیت کی وجہ سے ہم کسی حد تک یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ یہ اتحاد فرقہ واریت کے بھینٹ نہیں چڑھے گا ان شاء للہ ۔ شیعہ سنی مئسلے کے حوالے سے ہمارے پیارے وطن پاکستان کا سرکاری نظریہ نہایت پیارا نظریہ ہے،یعنی یہ کہ یہ دونوں فریقین مسلمان ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا سرکاری نظریہ ہی نہیں،بلکہ تمام سمجھدار اور امت کے حقیقی غم خوار علمائے کرام کا نظریہ ہے۔ بعض باتیں انتہائی عام فہم ہوتی ہیں،جن کے لئے فلسفوں کے گہرے سمندر میں غوطہ لگانا نہیں پڑتا۔شیعہ سنی اختلاف بھی کچھ ایسا ہی سادہ مئسلہ ہے،لیکن سمجھ نہیں آتا یہ قرقہ پرست لوگ واقعی نادان ہوتے ہیں یا جان بوجھ کر نادان بن رہے ہوتے ہیں؟ سنی حضرات جو شیعہ فرقے پر بنیادی اعتراض اٹھاتے ہیں وہ یہ ہے کہ شیعہ لوگ بعض صحابہ کرام(رض) کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں،اور یہ وہ صحابہ کرام(رض) ہیں جن میں سے ایک رسول اللہ (ص) کے غارِ ثور کے ساتھی اور پہلے مسلمان مرد(حضرت ابو بکر "رض") جبکہ دوسرے وہ صحابی تھے جن کے بارے میں آپ(ص) کا ارشاد ہے کہ اگر میرے بعد نبی نیآنا ہوتا تو یہ نبی ہوتے(حضرت عمر "رض") تھے ،جبکہ تیسری ام المومنین اورآپ (ص) کی شریک حیات حضرت عائشہ (رض) ہیں۔اگر یہ صحابہ کرام(رض) برے لوگ ہوتے اور ان کی نیتوں میں ملاوٹ یا لالچ ہوتی تو جس طرح اللہ نیآپ (ص) کو عبداللہ ابن ابی کے حوالے سے بتادیا کہ یہ منافق ہے،اسی طرح اللہ ان کے حوالے سے بھی بتادیتا۔ دوسری بات یہ کہ جہاں تک گالی گلوچ اور گستاخانہ زبان کا تعلق ہے تو وہ تو کوئی مہذب انسان دشمن کے خلاف بھی استعمال نہیں کرتا،یہ تو پھر رسولِ خدا (ص) کے رفقا تھے۔ تیسری بات یہ کہ چلو اگر مان بھی لیا جائے کہ نعوذ باللہ انہوں نے اہل بیت کے ساتھ زیادتی کی ہے،تو ہم کون ہوتے ہیں ان سے بدلہ لینے والے؟ یہ ان کا آپس کا معاملہ ہوگا،اللہ جانے اور وہ جانے،ہمارے لئے تو سارے محترم ہونے چاہیئے کیونکہ ہم سے اعمال میں تو ایک ادنٰی درجے کا صحابی بھی اونچا ہے۔ تو لہٰذا شیعہ بہن بھائی بھی اگر صحابہ کرام کی شان میں گستاخیاں کر تے ہیں تو یقیناََ یہ نا انصافی ہے۔ لیکن تقریباََ میں جتنے بھی تعلیم یافتہ شیعہ بہن بھائیوں سے ملا ہوں سب نے قطعی طور پر اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ مذکورِ بالا ہستیوں کی شان میں گستاخی کے حق میں ہیں یا ان سے بغض رکھتے ہیں۔ بعض سنی بہن بھائی کہتے ہیں کہ او جی! ان کی کتابوں میں تو گستاخانہ الفاظ موجود ہیں ناں،یہ بظاہر شرماتے ہیں،اس لئے اقرار نہیں کرتے،تو میں کہتا ہوں،کتابوں میں موجود بھی ہو لیکن آج کا شیعہ اگر اقرار نہیں کرتا اور ان باتوں کو اپنے عقائد ایک لمحے کے لئے بھی نہیں مانتا تو ہمیں اسے سراہنا چاہیئے،یہ تو اچھی بات ہے کہ وہ اپنے برادری کے ہی جاہل وفرقہ پرست افراد کے لکھے ہوئے لیٹریچرز پر یقین نہیں کرتا۔ تو اول تو آج کے تعلیم یافتہ شیعہ بہن بھائی ہرگز صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کے حق میں نہیں ہیں،اور دوسری بات یہ کہ فرض کر کوئی گستاخی کر تا بھی ہے،تو میری نظر سے ایسی کوئی حدیث یا قرآنی آیت آج تک نہیں گزری جس میں ایسا واضح الفاظ میں کہا گیا ہو کہ رسول اللہ(ص) کی طرح صحابہ کرام (رض) کی شان میں گستاخی کرنے والا بھی اسلام سے خارج ہوتا ہے،اور کافر ہوجاتا ہے،ہاں البتہ مرضی کے تشریحات نکالنا الگ بات ہے۔ ایسا کوئی بندہ گنہگار تو ضرور کہلایا جاسکتا ہے،مگر کافر کسی طور بھی نہیں۔ اس اصول کے تحت تو پھر بات بہت آگے تک نکل سکتی ہے،پھر تو کسی ولی یا پیر کی شان میں گستاخی کرنے والے کو بھی کافر کہا جاسکتا ہے۔ اور پیر یا ولی ہر بندہ ہر ایک کو نظر نہیں آتا،ذوق ذوق کی بات ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کا پیر سب کا پیر ہو،یا آپ جسے ولی سمجھتے ہیں،سب کو وہ ولی لگے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ جسے ولی یا پیر سمجھتے ہو وہ بھی واقعی ولی یا پیر ہو لیکن آپ کا مخالف دوست جو کہ آپ کے ولی یا پیر کو ولی یا پیر نہیں سمجھتا وہ خود جس کو ولی یا پیر سمجھتا ہے وہ بھی واقعی ولی یا پیر ہو۔ اگر مندرجہ بالا اصول کسی کو کافر ڈیکلئیر کرنے کے لئے استعمال ہونا شروع ہوجائے تو پھر ہر بندہ انفرادی طور پر ہر اس بندے کو کافر کہے گا جو اس کے پیر یا ولی کا پیرو کار نہ ہو،بھلے وہ کسی اور صحیح پیر یا ولی کا پیروکار ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ (ص) کے ارشاد پاک ہیکا مفہوم ہے کہ " میرے صحابہ (رض) کی مثال اآسمان کے ستاروں کی مانند ہے،تم ان میں سے جس کا انتخاب کر کے پیروی شروع کرو،کامیابی پاوگے" ( صحیح مسلم : ۲۵۳۱ ، الفضائل ، مسند احمد : ص:۳۹۹ ، ج: ۴ )۔ اس حدیث مبارک میں اگر چہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے کی کوئی اجازت تو نہیں دی گئی ہے،مگر پیروی کرنے میں انتخاب کا حق مسلمان کو دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جس صحابی کی شخصیت آ پ کے ذوق کے مطابق ہو آ پ اسے فالو کرسکتے ہیں۔ لہٰذا بے شک صحابہ کرام کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرنے والا انسان شدید ترین گنہگار ہے،لیکن کافر نہیں ہے،کافر تو تعریف کے مطابق صرف اسے کہتے ہیں جو کلمہ طیبہ اور دیگر پانچ کلمے،ارکان اسلام،اور ایمان مفصل و مجمل میں بیان شدہ عقائد پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ اور نفرت گنہگار انسان سے نہیں،بلکہ گناہ سے کرنی چاہیئے۔ گناہ گار انسان کی مثال ایک مریض کی سی ہوتی ہے،اور مریض سے نفرت نہیں کی جاتی،بلکہ اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان شیعہ سنی فساد نے پہنچایا ہے،اور آ ج تک پہنچا رہا ہے۔ اور اسی فساد کا یعنی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر مسلم مسلمانوں پر حکومتیں کرتے آ ئے ہیں اور مظالم ڈھاتے آ ئے ہیں۔ آ ج بھی شام و عراق میں ہمیں شیعہ سنی فساد کے کرشمے صاف نظر آ تے ہیں۔ مسلمان غیر مسلموں سے لڑنے کی بجائے آ پس میں شیعہ و سنی بن کر لڑ نے پہ زیادہ توجہ دے رہے ہیں،لیکن اس کام میں سنی کچھ زیادہ ہی پیش پیش ہیں،شیعہ تو سنیوں سے بھی لڑتے ہیں مگر ساتھ ساتھ ٖغیر مسلموں کو بھی کبھی ایک آ دھ دھمکی دے کر یا ان کے ساتھ ایک آ دھ جھڑپ کر کے غیر مسلموں کی آ نکھوں میں آنکھیں ڈال لیتے ہیں،لیکن سنی نہ صرف اس معاملے میں خاموش رہتے ہیں بلکہ الٹا غیر مسلموں کیساتھ کھلے عام یارانے نبھاتے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ دنیا میں وہ واحد ملک اسرائیل جس نے اپنے آ یئن کایہ حصہ بنایا ہوا ہے کہ اس نے کبھی شکست نہیں کھانی،جس کو 1948ء میں درجنوں سنی عرب ممالک شکست نہیں دے پائے کو جولائی 2006 کو لبنان کے ایک چھوٹے سے شیعہ جہادی تنظیم حزب اللہ شکست سے دوچار کرچکا ہے جس ناکامی کی وجہ سے اسرائیل کے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف Lt. Gen. Dan Halutz جنوری 17 ،2007کومستعفی بھی ہوگئے تھے۔ ایران کئی بار کھلے عام امریکہ کو للکار چکا ہے کہ آو ہم پر حملہ کرو،ہم تمہیں منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اور امریکہ ایران کے بار بار للکارنے کے باوجودآج تک ایران پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کر پایا ہے۔ گستاخ رسول سلمان رشدی کو قتل کرنے کا 1989 میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خا منا ای نے نہ صرف فتوٰی جاری کیا بلکہ اسے قتل کرنے کے عوض پہلا باقاعدہ کیش انعام مقرر کیا،جس وقت ابھی باقی مسلم ممالک یہ فیصلہ بھی نہیں کر پائے تھے کہ سلمان رشدی کو گستاخ بھی ڈیکلیئر کیا جائے کہ نہیں۔ ناروے اور ڈنمارک میں رسول خدا (ص) کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر سب سے پہلے ایران نے نہ صرف ان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کئے بلکہ ان کے سفیروں کو گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے مار مار کر ملک سینکال دیا ۔امریکی پابندیوں سے بچنے کے لئے امریکہ کی غلامی قبول کرنے کی بجائے امریکی پابندیوں کو گلے لگا کر متبادل رستے اختیار کرنے کا اعزاز بھی ایران کو حاصل ہے۔ ایران ہی کے ایک بین الاقوامی ائیر پورٹ پر واضح الفاظ میں "امریکہ شیطان بزرگ است" یعنی " امریکہ سب سے بڑا شیطان ہے" کے الفاظ کندہ ہے۔ پردے کے سب سے زیادہ پابند لوگ شیعہ ہے۔ بعض سنی بہن بھائی کہتے ہیں کہ یہ سب شیعوں کے ناٹک ہیں،اپنے آپ کو صحیح مسلمان ثابت کرنے کے لئے کرتے ہیں یہ سب،تو میں کہتا ہوں بھء ناٹک ہی صحیح،ہم تو یہ ناٹک بھی نہیں کر پا رہے، وہ کہتے ہیں ناں کہ آپ کو اگر اللہ کے سامنے رونا نہیں آتا تو کم سے کم رونے کی شکل ویسے ہی بنالو،پھر بھی تم پہ رحم کیا جائے گا،اور دوسری بات یہ کہ اپنے آپ کو صحیح مسلمان ثابت کرنے کے لئے صحیح اعمال کرنے پڑتے ہیں،تو یہ کونسی نقصان والی بات ہے،ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم صحیح اعمال اپنا کر اپنے آپ کو صحیح مسلمان ثابت کریں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل بھی سنیوں کی نسبت شیعہ سے زیادہ خوف زدہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ شام میں بشارالاسد کے پیچھے امریکہ بہادر ایک عرصے سے پڑا ہوا ہے اور اپنی بھر پور کوششوں کے باوجود بشارالاسد کو نہ ہٹا سکا۔ "داعش" جیسی تنظیم کی بنیاد بھی سب جانتے ہیں امریکہ نے ڈالی ہے اور امریکہ ہی اس تنظیم کو چلا رہا ہے،جس کا مشن شام اور اس کے مضافات میں شیعہ اسر و رسوخ کو ختم کرنا ہے جس حوالے سے تنظیم کو ابھی تک منہ کی کھانی پڑ رہی ہے ۔ اسلام دشمنوں کے خلاف شیعوں کی جرات و بہادری قابل ستائش ہے۔ یہ باتیں میں اپنے ان سنی بہن بھایؤں کے لئے عرض کر رہا ہوں جن کے خیال میں شیعہ اسلام دشمن ہیں۔ شیعہ لوگوں کے ان مذکورہ ظاہری اقدامات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام دشمن نہیں،بلکہ اسلام کے دشمنوں کے دشمن ہیں،اور باطن کا اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں،جبکہ ہم سنی اسلام دشموں یعنی امریکہ اسرائیل و دیگر مغربی ممالک کے دوست یا اگر دوست نہ بھی ہو تو کم سے کم دشمن بھی نہیں ہیں،اور شیعہ لوگوں کے دشمن ہیں۔ ہم سنی غیر مسلموں کو اسلام کے لئے خطرہ سمجھتے ہی نہیں،اورشیعہ کو سمجھتے ہیں۔ شیعہ لوگ اگر بقول بعض سنی بہن بھائیوں کے،غلطی پر بھی ہے،تو پھر بھی وہ گھر کے لوگ ہیں،کم سے کم اللہ،رسول (ص) اور قرآن کو تو مانتے ہیں،ان کو تو آپ بعد میں بھی پیار سے بھی سمجھا سکتے ہیں،پہلے کفار سے تو نمٹے۔میری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ سنی کافر ہے اور نہ شیعہ۔ اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی وجہ دونوں فریقین میں مندرجہ بالا ذکر شدہ خامیا ں ہیں۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور ایک دوسرے کے خلاف اتحادیں بنانے،وسائل و توانائی خرچ کرنے،کی بجائے تمام شیعہ و سنی مسلمانوں کو مل کر ان قوتوں کے خلاف اتحادیں بنانے چاہیئے،وسائل و توانائی خرچ کرنی چاہیئے جو ہمیں ہر وقت اآپس میں مشت و گریباں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین۔

"آپس میں بھائی بھائی یا قصائی قصائی؟"

"آپس میں بھائی بھائی یا قصائی قصائی؟"
تحریر ؛ ارشد خان آستک۔ اردو شاعر و کالم نگار
میں مانتا ہوں کہ ایران پس پردہ امریکہ کا یار ہے لیکن سعودی نے کتنا نقصان پہنچایا ہے امریکوں کو؟ کونسی جنگ لڑی ہے آج تک امریکہ کے خلاف؟ ایران تو پس پردہ یار ہے؛ سعودی تو علی الاعلان یار ہے۔ ایران تو پس پردہ اسرائیل کا یار ہے سنی ملک مصر اور کئی ایک سنی ممالک کا پہلے سے علی الاعلان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں جبکہ ایک اور سنی ملک ترکی کے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار ہوئے ہیں۔ چھپ کر غلط کام کرنے والا میرے خیال سے غلط کام سب کے سامنے کرنے والے کی نسبت پھر بھی اچھا ہوتا ہے کیونکہ اس میں حیا تو ہوتی ہے۔بہرحال مطلب یار شیعہ اور سنی دونوں ہی ہوئے اہل صلیب کے۔ تو پھر کیا یہ مضحکہ خیز نہیں کہ ایک دوسرے پر اس وجہ سے لعن طعن کیا جائے کہ وہ امریکہ کا یار ہے؟ پشتو میں ایک محاورہ ہے "کوزہ غلبیل تہ وئ چے تا کے دوہ سوری دی"۔ اس حمام میں دونوں ہی ننگے ہیں۔ جب تک ہم اللہ کی بجائے امریکہ اینڈ کمپنی کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے اور ان کے اشاروں پہ ناچیں گے تو مار ہی کھائیں گے۔ جو کچھ مدینہ منورہ میں ہوا؛ جو عراق اور شام میں ہورہا ہے؛ سب ہمارے اعمال کے نتائج ہیں اور اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہود و نصارٰی آپ کے دوست نہیں ہوسکتے۔ شیعہ کو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں لڑو سنیوں کے خلاف اور سنیوں کو کہتے ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں لڑو شیعوں کے خلاف۔یہ وہ کام ہے کہ چور کو کہا جائے کہ آج مکان خالی ہے اور مالک مکان کو کہا جائے کہ بھئ بیدار رہنا آج تمھارے گھر چور آنے والا ہے۔ دونوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنا اور دونوں کو آپس میں لڑوانا بھی۔ جس آگ نے سعودی عرب کو لپیٹ میں لے لیا ہے یہ سعودی کا امریکی ایما پر یمن کے شیعوں پر بمباریوں اور عراق و شام میں شیعوں کا قلع قمع کرنے کے لئے داعش جیسی سنی انتہا پسند جماعت کی معاونت کا نتیجہ ہے۔کانٹے بووگے تو کانٹے ہی مقدر ہوگا۔ میں مدینہ منورہ حادثے کی ذمہ دار شیعہ برادری کو نہیں سمجھتا بلکہ سعودی کا شیعہ مخالف پالیسیوں اور کاروائیوں کو سمجھتا ہوں۔پتھر کا جواب اگر اینٹ نہ ہو تو پتھر نے تو ہونا ہی ہے۔کوئی بے وقوف ہی پتھر کے بدلے پھولوں کا ہار پہنائے جانے کی توقع رکھ سکتا ہے۔ آج کا مسلمان قوت بازو کفار کی بجائے اپنے ہی مسلمانوں کو کفار کے ایجنٹ قرار دے کر ان پر ہی آزماتے ہیں۔کچھ کفار کی خوشنودی کے لئے اور ان کی چمچہ گیری میں ایسا کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ اس وجہ سے ایسا کر رہے ہوتے ہیں کہ دور مضبوط قلعوں اور مورچوں میں قیام پذیر اغیار کی نسبت اپنے گھر میں رہنے والے اپنوں پر غصہ آسانی سے اتارا جاسکتا ہے ؛ اور آسانی سے نمبرات بنائے جاسکتے ہیں اور خود کو بہادر ظاہر کیا جاسکتا ہے۔اگر واقعی کوئی مسلمان ہے بھی کفار کا ایجنٹ تو کفار کو کچھ کہنے کی بجائے اسے کچھ کہنے کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک طرف کسی پراڈکٹ کو ختم کرنے کے لئے پراڈکٹ کو دریا میں پھینکا جارہا ہو اور جلایا جارہا ہو تو دوسری طرف پراڈکٹ کی فیکٹری کو کام کرنےدیا جارہا ہو۔ کفار یعنی فیکٹری موجود ہوں اور ہم ان سے عداوت رکھنے اور ان کا رستہ روکنےکی بجائے ان سے یاریاں نبھا رہے ہوں اور آپس میں لڑ رہے ہوں تو پراڈکٹ یعنی ایجنٹس(بقول ہمارے) تو بنیں گے ہی۔پراڈکٹ ناپید فیکٹری کو لگام دینے سے ہی ہوتا ہے؛ نہ کہ اس طریقے سے کہ ادھر فیکٹری مسلسل پراڈکٹ بنا رہی ہو اور ادھر بندہ ایک ایک پراڈکٹ کے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑ کر تباہ کر رہا ہو۔کاش سعودی عرب 35 یا 40 ممالک کا اسلامی اتحاد یمن کے شیعوں پر حملے کرنے کی بجائے امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تشکیل دیتا تو آج مدینہ منورہ کی طرف کفار میلی آنکھ سے دیکھ بھی نہ پاتے؛ وہاں بد امنی پھیلانا تو دور کی بات ہوتی۔
تحریر ؛ ارشد خان آستک؛ اردو شاعر و کالم نگار

تمام فرینڈز سے ایک درخواست۔ پلیز ضرور پڑھیئے گا۔

تمام فرینڈز سے ایک درخواست۔ پلیز ضرور پڑھیئے گا۔
آج اگر مسلمان اس قدر بے غیرت ؛ بزدل یا بالفرض مجبور یا بے بس ہے کہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کفار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے ایجنسیز کو اپنے ممالک سے باہر نکال پھینکے اور مکہ و مدینہ کی قوت بازو سے حفاظت یقینی بنائے اور وہاں بد امنی پھیلانے پر کفار کو پوچھ لے تو کم سے کم بے حس تو اسے نہیں ہونا چاہئیے۔سرزمین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا کچھ تو اظہار کرنا چاہیئے۔ اگر ہم مندرجہ بالا قسم کے اقدامات اٹھاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ثبوت نہیں دے سکتے تو کم سے کم زیادہ سے زیادہ درود وسلام ان (صلی اللہ علیہ و سلم) پر بھیج کر تو محبت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ آئیں عہد کریں کہ آج سے روزانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنا ممکن ہوسکے درود و سلام بھیجیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
" جو مجھ پر روزانہ ایک ہزار مرتبہ درود پڑھے گا ؛ وہ مرنے سے پہلے ہی خواب میں جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھے گا۔"
(اَلتَّرغِیب فی فضائل الاعمال لابن شاہین ص ۱۴حدیث۱۹)
ضروری نہیں کہ درود لمبا ہو۔مختصر درود پڑھیں بے شک۔ جیسے ذیل میں ایک مختصر درود پاک ہے ؛
اللّٰھم صل علٰی سَیِّدِنا محمد۔
آئیں ایک کاؤنٹر لے لیں اور عہد کریں کہ آج کے بعد روزانہ ایک ہزار مرتبہ یہ درود ہم پڑھیں گے۔ ان شاء اللہ۔ ایک جگہ پر بیٹھ کر تنہائی میں معتکف ہو کر ہی اسے پڑھنا ضروری نہیں۔پڑھتے وقت گھومیں؛ پھریں بیچ میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی لگائیں۔اس طرح سے آپ کو محسوس بھی نہیں ہوگا جب کاؤنٹر کی طرف دیکھیں گے تو ہزار سے اوپر اوپر پڑھا ہوگا آپ نے۔ اور ویسے بھی کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے انسان کے لئے؛ بس عادت بنانی پڑتی ہے۔ یہ بے حسی کی انتہا ہوگی کہ ہم اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صرف یہ اتنی چھوٹی سی ریاضت بھی نہیں اٹھا سکتے۔ بڑی بڑی ریاضتیں اٹھانے والے تو ہم ویسے بھی نہیں ہیں۔ جو اسے اپنا معمول بنانے کا ارادہ کرے وہ کمنٹ میں بتائیں تا کہ ہمارے دل کو تسلی ہو کہ ہماری درخواست کی کچھ تو لاج رکھی ہمارے دوستوں نے۔

"کیا سعودی میں تخریبی کاروائیوں میں داعش کا ہاتھ ہے؟"


"کیا سعودی میں تخریبی کاروائیوں میں داعش کا ہاتھ ہے؟"
(تحریر: ارشد خان آستک؛ اردو شاعر و کالم نگار)
سعودی میں تخریبی کاروائیوں کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ داعش کا کیا دھرا ہوتا ہے۔ پر پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے آج تک خود کوئی ایسی خبر کسی ذمہ دار نیوز ایجنسی کی شائع کی ہوئی نظر نہیں آئی کہ جس میں ان کاروائیوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہو یا ان میں داعش کے ملوث ہونے کے شواہد مل گئے ہوں۔اور بالفرض داعش ذمہ داری قبول بھی کرے تب بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام واقعی داعش والے کرتے ہیں۔کسی اور کی کارستانی کو اپنی بہادری ظاہر کرنے کے ہتھکنڈے جنگجو تنظیمیں اپنا رعب جمانے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ داعش ایک سنی انتہاء پسند تنظیم ہے جس سے خطرہ شیعہ ملک ایران اینڈ کمپنی کو ہے نہ کہ سنی ملک سعودی اینڈ کمپنی کو۔ اور پھر سعودی نے داعش کے خلاف جاری آپریشنز میں عملی طور پر اپنی طرف سے بندوق کی ایک گولی بھی نہیں چلائی ہے آج تک۔دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنےکی خاطر اگر سعودی نے داعش کےخلاف کچھ تھوڑا بہت کیا بھی ہو تو اس میں یہ اس حد تک نہیں گیا ہوگا جس حد تک شیعوں کے خلاف اقدامات کرنے کے معاملے میں جاچکا ہے۔سعودی بھی عراق شام اور یمن وغیرہ میں شیعہ جنگجووں کو کچلنے کا کام کر رہا ہے اور داعش بھی یہی کچھ کر رہا ہے؛ گو دونوں کے گرینڈ مفادات مشترک ہوئے؛ تو ایسے میں اس بات کا تو کوئی جواز منطقی لحاظ سے نہیں بنتا کہ سعودی اور داعش ایک دوسرے کے دشمن ہوں الٹا اس بات کا قوی امکان بنتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کے معاون ہوں۔ تیسری بات یہ کہ داعش کو امریکہ نے ہی بنایا ہے اور یہ تنظیم امریکی امداد سے ہی چل رہی ہے۔ امریکہ نے شام کے شیعہ اور ملک روس کے حامی صدر بشارالاسد کی اقتدار کو ختم کرانے کے لئے اس تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ (کوئی سادہ لوح یہ کہہ سکتا ہے کہ امریکہ تو داعش کے خلاف لڑ رہا ہے تو اس کے لئے عرض ہے کہ یہ محض ایک ڈرامہ ہے؛ سب دیکھ رہے ہیں کہ داعش جتنے شیعوں کی اور شام و عراق کے اپنی فوجیوں کی گردنیں اڑا رہا ہے اس کے ایک فیصد بھی امریکی فوجیوں کو قتل نہیں کیا ہے ابھی تک۔ مزید یہ کہہ اگر امریکہ واقعی داعش کو ختم کرنے میں مخلص ہوتا تو روس کو کیوں ضرورت پڑتی شامی صدر کی مدد کے لئے داعش کے خلاف میدان میں کودنے کی۔داعش تو امریکی دشمن شامی صدر کے خلاف لڑنے والے باغی ہیں جس کی امریکہ کو ضرورت ہے ؛ جہاں لیبیا میں امریکہ دشمن صدر قذافی کے راج کا خاتمہ کرنے کے لئے لیبیا میں حکومت وقت کے خلاف اٹھنے والے باغیوں کو زبردست انداز میں امریکہ نے ہر لحاظ سے سپورٹ کیا وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ دشمن بشارلاسد کے خلاف برسرپیکار باغیوں کو امریکہ اپنا دشمن سمجھے؟ دوسری بات یہ کہ داعش اسلام کو بدنام کر رہا ہے اور امریکہ بھی یہ چاہتا ہے تو ایسے میں بھلا ان میں اور امریکہ میں کیسے دشمنی ہوسکتی ہے؟ خود عراقی عوام عینی شاہد ہیں اس بات کے کہ داعش والوں کو باقاعدہ امریکی ہیلی کاپٹرز اور جہاز اوپر سے اسلحہ و دیگر امدادی سامان تک پھینک چکے ہیں۔کئی ایک نیوز ایجنسیز بھی اس بات کے دعویدار ہیں کہ ان کو ایسے شواہد ملے ہیں کہ داعش کو امریکہ چلا رہا ہے۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ خبریں جھوٹی ہیں؛ میڈیا بک چکا ہے؛ جھوٹ بول رہی ہے ہر نیوز ایجنسی؛ یہ سارا انٹرنیٹ بھی تو میں کہوں گا کہ بھائی اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بھی میڈیا ادارے ہیں جو بک چکے ہیں ؛ مگر سارے ادارے ایک جیسے نہیں ہیں ؛ اچھے ادارے بھی موجود ہیں۔ اب وحی تو پیغبروں "ع" پر ہی نازل ہوا کرتی تھی ؛ ہمارے پاس تو انفارمیشن کے حصول کے ذرائع یہی انٹرنیٹ و دیگر میڈیا سورسز ہی ہیں۔ ) ہاں تو بات ہورہی تھی کہ چونکہ شیعوں کے خلاف لڑنے کے داعشی اور سعودی مفادات مشترک ہیں تو ایک تو اس وجہ سے داعش سعودی پر حملہ آور نہیں ہو سکتا ؛ دوسرا اس وجہ سے کہ تنظیم داعش امریکہ کی بنائی ہوئی ہے تو جو امریکہ کی نہ مانے داعش اس کو ٹارگٹ کرسکتا ہے۔سعودی عرب ماشاءاللہ اس معاملے میں بھی سرخرو ہے۔ :-) تو لہٰذا داعش سعودی عرب میں ہونے والی تخریبی کاروائیوں میں ملوث نہیں ہے ؛ یہ کاروائیاں شیعہ گروہیں کر رہے ہیں اور سعودی کے شیعہ مخالف پالیسیوں اور اقدامات کا رد عمل ہے۔ خاص کر حال ہی میں یمن کے شیعہ آبادی پر بمباریوں کا۔۔۔ داعش اگر سعودی کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو ایسا صرف ایک صورت میں ہوسکتا ہے وہ یہ کہ امریکہ اگر "ہاتھی کے دانت کھانے کے اور؛ دکھانے کے اور" والا کام کر رہا ہو۔چونکہ یہود و نصارٰی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے اور نہ ہی یہ مسلمانوں سے اس وقت تک خوش ہوسکتے ہیں جب تک مسلمان مکمل طور پر علی الاعلان اور عملی طورپر اپنا دین نہ چھوڑے۔ تو اس وجہ سے اگرچہ سعودی کا امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی ہوں پھر بھی امریکہ کے دل میں اس کے لئے کالا پن موجود ہونا اور اس کی بربادی کے خواب دیکھنا فطری بات ہے؛ اور یہ امریکہ کے "اسلام اور مسلمان کو ختم کرو" کے مشن کا حصہ رہے گا۔ تو صرف اس ایک صورت میں ممکن ہے کہ داعش سعودی میں ہونے والی تخریبی کاروائیوں میں ملوث ہو۔باقی تو کوئی اور صورت منطق کے لحاظ سے نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔
( تحریر : ارشد خان آستک؛ اردو شاعر و کالم نگار)

"روح کی موجودگی کے دلائل"


"روح کی موجودگی کے دلائل"

تحریر : ارشد خان آستِکؔ؛ اردو شاعر و کالم نگار

خالق ِ کائنات ،خدا اور رب اللہ جل شانہ کی دیگر بیش بہا نشانیوں کی طرح "روح" بھی ایک کھلی نشانی ہے۔ روح جس کو سائنسی اصطلاح میں Vital Force یعنی وہ قوت جس کی وجہ سے حیات ممکن ہوتی ہے،ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل حصوں میں بحث کرتا ہوں:۔
1)جاندار اشیا کی تخلیق کے حوالے سے،جیسا کہ بائیولوجی کی تاریخ میں رقم ہے، جس کاذکر نویں جماعت کی بایئولوجی کی کتاب میں بھی ہے کہ دو مکاتب فکر کے گروہ تھے۔ ایک مکتبہ فکر والے کو Abiogenesis کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو Biogenesis کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ Abiogenesis کا عقیدہ تھا کہ تمام جاندار اشیا خود بخود بے جان اشیا سے وجود میں آچکے ہیں،جبکہBiogenesis کا خیال تھا کہ جاندار شے صرف جاندار سے ہی وجود میں آتا ہے۔ اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے کے لئے دونوں گروہوں کے درمیان ایک عرصے تک تجربات جاری رہے۔ پھر حتمی طور پر Louis Paster کے 1864 میں کئے گئے تجربات کو متفقہ طور پر سائنسدانوں نے تسلیم کیا جس میں Abiogenesis کے نظریے کو غلط ثابت کیا گیا جس کے بعد Louis Paster نے باقاعدہ کہا کہ زندگی کا خود بخود بے جان اشیا سے وجود میں آنا محض ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ گویا سائنس نے تسلیم کیا کہ جاندار اشیا صرف جانداروں سے ہی وجود میں آتے ہیں،بے جان چیزوں سے وجود میں نہیں آسکتے۔ بالفاظ دیگر زندگی ہی زندگی کو جنم دیتی ہے۔ آج تک Biogenesis بائیولوجی کا ایک "اصول"، یعنیPrincipleہے۔ واضح رہے کہ سائنسی اصطلاحات میںPrincipleآخری مضبوط ترین بیان ہوتا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز Observation سے ہوتا ہے،پھر Hypothesisہوتا ہے جو کہ اگر تجربے سے پاس کرنے کے بعد درست ثابت ہوا توTheory بن جاتا ہے،Theoryاگر صدیوں تک غلط ثابت نہ ہوئی تو Lawبن جاتا ہے،اب Lawجب صدیاں گزرنے کے بعد بھی غلط ثابت نہ ہو تو پھر یہ Principleکا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔گویاPrinciplesسائنس کے ستون ہوتے ہیں۔ چونکہ Biogenesis ایک سائنسی اصول یعنیPrincipleبن گیا،اب ارتقا پرست سائنسدانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ اسے تسلیم کرے،چنانچہ تسلیم تو کیا اسے لیکن ایک بات کا اضافہ کر کے کہ بے جان اشیا سے زندگی کا آغاز کائنات میں صرف ایک بار ہوا ہے،اس کے بعد دوبارہ اب یہ نہیں ہوگا کبھی بھی۔اس کی کوئی سائنسی ثبوت ان کے پاس نہیں ہے،بس ایک عقیدہ ہے کہ کائنات میں جانداروں کا آغاز سب سے پہلے اتفاقی طور پر ایک زندہ پروٹین کے وجود میں آنے سے ہوا۔ ان کو یہ بھی پتا ہے کہ مخالفین بھی اگر اس کو مان نہیں سکتے تو اس کو رد بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ اس وقت وہاں کون موجود تھا بھلا۔ تا ہم ایسی باتیں کرتے ہوئے یہ ارتقا پرست سائنسدان یہ بھول جاتے ہیں کہ سائنس ہر اس بات پہ یقین رکھتا ہے جو بار بار تجربے سے پاس ہوسکتی ہو،اور اس کا نتیجہ بار بار اخذ کیا جاسکتا ہو۔مثال کے طور پر ہائیڈ روجن اور آکسیجن دس سال پہلے ملے تو بھی پانی بنائیں گے،دس سال بعد ملے تو بھی پانی بنائیں گے،دن کو ملے تو بھی پانی بنائیں گے،رات کو ملے تو بھی پانی بنائیں گے۔ سائنس ذاتی خیالات پر یقین نہیں رکھتا،جو انسان کہتا ہے،اسے ثابت بھی کرنا پڑتا ہے۔ آج تک دنیا کے کسی بھی کونے سے بے جان اشیا سے جاندار کے قدرتی طور پروجود میں آنے کی کوئی سائنسی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے،نہ ہی کوئی سائنسدان اپنے تجربے سے ایسا کچھ ثابت کر پایا ہے۔ بالفاظ دیگر Abiogenesis کا نظریہ درست ثابت نہیں ہوچکا ہے۔ گویا بائیولوجی کاایکPrincipleیعنی Biogenesis صد فی صد نظریہ ارتقا (جو کہ صرف ایک theory یا بعض کے نزدیک hypothesis تک کہا جاتا ہے اسے جو کہ دونوں principleسے درجے میں کم ہیں)کے شروع والے نکتے کے ہی مخالف ہے کہ ایک جاندار پروٹین اتفاقاََ بے جان اشیا سے وجود میں آیا۔ تو جس کتاب کا حرف اول ہی غلط ہو،اس سے آگے کیا درست معلومات کی توقع کی جاسکتی ہے۔۔۔

۔۔۔
2) سائنسدانوں کو Basic and Eseential Bioelements، یعنی وہ اجزا جس سے جسی جاندار کا وجود بنا ہو اور نشوونما کر رہا ہو، کا بھی مکمل لسٹ معلوم ہے،پھر بھی لیبارٹری میں ان اجزا کو اکھٹا کیا جاتا ہے تو اس سے کوئی جاندار وجود میں نہیں آتا۔ یہاں تک کہ بے جان سہی مگر مصنوعی گوشت بھی کامل حالت میں ابھی تک تیار نہیں ہوسکا ہے۔بعض ملحدین Genetic Engeneering کے نیم ملا بن کر کلوننگ ،ٹیسٹ ٹیوب بے بیز اور جینز میں مصنوعی تبدیلیاں لانے کو ہی زندگی کا تخلیق سمجھتے ہیں،حالانکہ سائنس کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جین تو پہلے سے ہی ایک زندہ شے یعنی سِل کا حصہ ہے،تو اب تھوڑے سے خراب جین کو ریپیئر کرنا یا انسان کی ذاتی زیادہ خراب یا مرے ہوئے جین کو نکال کر اس کی جگہ دوسرے انسان کی جین لگانا زندگی کی تخلیق کیسے ہوگئی بھئی؟۔ گو کہ بعض دعووں کے مطابق مصنوعی جین بھی بنانے میں سائنسدان کامیاب ہوچکے ہیں جو کہ جب سل میں داخل کرائے جاتے ہیں تو ٹھیک ٹھاک قدرتی جین کی طرح پرورش بھی کرتے ہیں اور تقسیم ہو کر نسل بھی بڑھاتے ہیں؛اگر ایسا ہو بھی پھر بھی جین کی تخلیق کو زندگی کی تخلیق بہرحال نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جین جب جاندار کے خلیئے کے اندر ہو تو یہ تقسیم ہو کر اپنی نسل بڑھا سکتا ہے اور پرورش بھی کرسکتا ہے چونکہ یہ جاندار شے کی نشانی ہے ؛اس لئے اس وقت جین کو جاندار کہا جاسکتا ہے۔جونہی یہ جین سل سے نکالا جاتا ہے یہ مندرجہ بالا قسم کی خاصیتیں یعنی پرورش کرنا اور تقسیم ہوکر نسل بڑھانا کھو دیتا ہے تو لہذا اس وقت اسے بے جان کہا جائے گا۔یہ خصوصیات وائرس اور جین میں مشترک ہیں۔اب جس طرح وائرس کو اپنے انہی خصوصیات کی بنا پر جاندار تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ جانداروں کے پانچ کینگڈمز میں سے کسی کینگڈم میں یہ شامل نہیں ہے؛تو اسی طرح جین کو بھی جاندار نہیں سمجھا جاسکتا۔ جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ ایک حالت میں ہی سہی مگر جین کو جاندار تو مانا جاتا ہے اور جین سائنسدان بنا سکتے ہیں مصنوعی طور پر تو یہ گویا سائنس زندگی تخلیق کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو عرض ہے کہ جین جاندار کے خلئیے کے بغیر جاندار نہیں کہلایا جاسکتا وہ خلئیے کی جانداری کے بل بوتے پر ہی جاندار ہوتا ہے۔ وہ خلئے کی روح؛زندگی یا جان استعمال کررہا ہوتا ہے۔ اور خلئے میں جان پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ جونہی یہ خلئے سے باہر نکلے تو نہ اس میں میٹابولک ایکٹیویٹیز ہوتی ہیں؛نہ وہ گروتھ کرتا ہے؛نہ ریپلیکیشن؛ اور یہ بے جان چیز کے خصوصیات ہیں۔ جین اپنے آپ کو جاندار بنانے کے لئے کسی جاندار کے خلئے میں پہلے سے موجود جلئے کی روح کو ہی استعمال کرتا ہے۔ایسا کوئی جین یا کوئی بھی چیز سائنسدان بے جان اشیاء سے نہیں بنا چکے ہیں کہ بغیر جاندار کے جسم میں اسے انٹرو ڈیوس کرائے یا بغیر کسی جاندار سل کے ساتھ اسے جوائن کئے ؛ وہ گروتھ اور ریپلیکیشن کرسکتا ہو۔ایسا جس دن ہوا تو یہ بایو لوجی کے ناقابل شکست اصول biogenesis کا رد ہوگا۔یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہوگی کہ کسی گمنام ویب سائٹ کے کسی گمنام پیج پر شائع ہو بلکہ دنیا کے چھوٹے بڑے تمام خبر رساں ادارے اس خبر کو نشر کریں گے۔۔پوری دنیا میں یہ خبر جنگا کی آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ سائنس کی دنیا میں انقلاب آجائے گا اور انقلابات ڈھکے چھپے نہیں ہوتے۔۔۔اسی طرح کلوننگ کے عمل میں بھی بے جان چیزوں سے تو کوئی جاندار نہیں بنتا، فی میل کے جاندار egg cell or ovumمیں میل کے بدن کے کسی جاندار سل ِ کے جاندار نیوکلیس کو داخل کیا جاتا ہے۔یہی معاملہ ٹیسٹ ٹیوب بے بیز فارمیشن کا بھی ہے۔ جس میں جاندار سپرم اور جاندار اووم کو ملایا جاتا ہے،کمال صرف ماں کے پیٹ کی بجائے ایک مصنوعی پیٹ مہیا کرنا ہوا،نہ کہ جان یا حیات کی تخلیق،جان تو سپرم اور اووم میں پہلے سے ہی ہوتی ہے۔۔۔

3) جو لوگ سمجھتے ہیں کہ موت اس وجہ سے واقع ہوتی ہے کہ جسم کا کوئی حصہ Damage ہوجاتا ہے،اس سے عرض ہے کہ اگر محض یہ وجہ ہو تو پھر تو اگر وہ Damagedحصہ Repareہوجائے پھر تو مردے کو زندہ ہونا چاہیئے تھا؟ اگر واقعی موت کی کیفیت محض ایک حصہ کے Damage ہونے کی وجہ سے طاری ہے۔ اور اگر اس حصے کی مرمت کرنے کے بعد بھی مردہ زندہ نہ ہو تو سمجھ لینا چاہیے،کہ اس حصے کے Damageہونے نے گو کہ موت کو بلانے میں مدد کی،لیکن موت کی کیفیت طاری اس حصے کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے نہیں،بلکہ حیاتی قوت Vital forceکے جسم کو چھوڑ جانے کی وجہ سے ہے،جس کو با الفاظ دیگر روح کا چھوڑ جانا ہی کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب کوئی بندہ گردن دباکر سانس کی نالی توڑی دیر کے لئے بند رکھنے یا منہ اور ناک کو بند رکھنے کی وجہ سے مرجاتا ہے تو اگر موت واقع ہونے کے لئے بدن کے کسی حصے کو نقصان پہنچنا ہی شرط تھا تو اس قسم کی موت میں تو بدن کے کسی حصے کو کوئی فیزیکل نقصان نہیں پہنچتا،مثلاََ سانس کی نالی کو دبا کرکچھ دیر کے لئے بند رکھنے کے بعد چھوڑ دینے سے نہ تو نالی کٹتی ہے،نہ اس کے اندر کی رگیں،نروز وغیرہ کٹتے ہیں۔ اسی طرح ہرٹ اٹیک کے دوران بھی ہرٹ صرف فیل ہی ہوجاتا ہے،پھٹتا تو نہیں ہے،باقی بھی بدن کو فیزیکل نقصان نہیں پہنچتا۔ جس طرح ہم ایک زندہ انسان کے خراب ہرٹ کو ہٹا کر اس میں نیا یہاں تک کہ مصنوعی ہرٹ لگا سکتے ہیں تو پھر ہرٹ اٹیک کی وجہ سے مرنے والے شخص میں کیوں نیا صحیح ہرٹ نہیں لگاسکتے کہ وہ بلڈ سرکولیشن میں فیل نہ ہوتا ہو؟۔۔۔پس ثابت ہوتا ہے کہ موت اس لئے واقع ہوجاتی ہے کہ بدن کو کوئی مخصوص Vital force یعنی حیاتی قوت چھوڑ جاتی ہے، جسے ہم بدن کو لاکھ ریپیئر کر کے بھی نہیں لوٹا سکتے۔پس موت بدن کے کسی حصے کے محض Damage ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ جانداروں میں پائے جانے والے Vital force کا ان کے بدن کا ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ سے ہی واقع ہوتی ہے،جس کے بعد آپ Damage حصے کو لاکھ چاہے ریپیئر کریں لیکن بدن زندہ نہیں ہوسکے گا۔ اسی Vital force کو بالفاظ دیگر روح کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔

4)ایک برطانوی ٹیم نے چار سالوں تک دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کا مطالعہ کیا جس کے دوران ان کے تجربات کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔
مطالعے کے مطابق تقریباً 40 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ جب انہیں طبی طور پر مردہ قرار دے دیا گیا اس کے باوجود انہیں کسی نہ کسی صورت میں ’شعور‘ حاصل تھا۔
اس وقت ماہرین کا ماننا ہے کہ دل کی حرکت رک جانے کے 20 سے 30 سیکنڈز کے اندر ہی دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے اور اس کے بعد کسی بھی قسم کا ’شعور‘ ہونا ممکن نہیں۔
تاہم اس نئے مطالعے میں سائنسدانوں نے ایسے شواہد فراہم کیے جہاں مریضوں نے طبی موت کے تین منٹ بعد تک حقیقی زندگی کے تجربوں کو شیئر کیا اور وہ موت کے بعد اس موقع پر ہونے والے واقعات کو بالکل درست انداز میں بیان کرنے میں کامیاب رہے۔ریسرچ کے سربراہ اور اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیم پارنیا کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے مریضوں کے تجربات خیالی تصورات پر مبنی ہوتے تھے۔تاہم ایک شخص نے ’انتہائی قابل اعتماد‘ تجربہ بیان کیا جس کے دوران ڈاکٹر اور نرسیں انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔مریض کا کہنا تھا کہ وہ کمرے کے کنارے سے اپنے آپ کو زندہ کرنے کی کوششوں کا مشاہدہ کررہا تھا۔ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے پارنیا کا 57 سالہ سوشل ورکر کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ دل کے رک جانے کے بعد دماغ کام نہیں کرسکتا، لیکن اس معاملے میں شعور موت کے تین منٹ بعد تک برقرار رہا۔انہوں نے بتایا کہ اس شخص نے اس کمرے میں ہونے والی تمام سرگرمیاں بیان کیں تاہم اہم ترین بات انہوں نے مشینوں کی دو ’بلیپ‘ کی آوازوں کے حوالے سے بتائیں جن سے ہمیں اندازہ ہوا کہ موت سے لیکر واپس زندہ کیے جانے کا وقت تین منٹ تھا۔پارنیا کے مطابق ان کی معلومات بظاہر کافی قابل اعتماد ہیں اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا وہ واقعی اس کمرے میں ہوا تھا۔پارنیا کے مطالعے میں برطانیہ، امریکا اور آسٹریا کے 15 ہسپتالوں کے 2060 مریضوں کو ریسرچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح 
جرمنی کے ماہرین نفسیات اور محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے تجربات سے ثابت ہوگیا ہے کہ موت کے بعد بھی زندگی جاری رہتی ہے اگرچہ اس کی نوعیت ہماری دنیا کی زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔یہ تجربات جرمن کی ٹیکناچی یونیورسٹیٹ ( Techniche Universtiat ) میں کارڈیو پلونری ریسی ٹیشن مشین کی مددسے کیے گئے جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 944 افراد نے رضاکارانہ طور پر شرکت کی۔ تجربات میں شامل افراد کو ادویات کی مدد سے 20 منٹ کے لیے کلنیکلی موت کی کیفیت میں پہنچایا گیا ۔ یہ کیفیت ایسے ہی ہے جیسے کسی کی حقیقی موت واقع ہوجائے لیکن اس کی خاص بات ہے کہ سی پی آر مشین اور ادویات کی مدد سے ان کی زندگی دوبارہ بحال کی جاسکتی ہے۔
تجربات میں شامل سب افراد نے ملتے جلتے قریب المرگ تجربات بیان کیے جن میں اوپر اٹھ جانے بہت سکون اور راحت محسوس ہونے اور جسم مردہ ہونے کے باوجود سب احوال کا مشاہدہ کرنے کی کیفیات شامل ہیں ۔ تحقیق کے سربارہ ڈاکٹر برتھولڈایکرمین کا کہناتھا کہ ان تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ جسم مردہ ہونے سے زندگی کا اختتام نہیں ہوتا بلکہ انسان ایک لطیف حالت اور کیفیت میں چلاجاتا ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔۔۔

جہاں تک "روح کی موجودگی" کا تعلق ہے تو مندرجہ بالا تمام نکات سے روح کی موجودگی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہاں اب یہ الگ بحث ہے کہ روح کی شکل کیسی ہے؟ روح کا رنگ کیسا ہے؟ روح کی قد کتنی ہوگی؟ روح کی وزن کتنی ہوتی ہے؟روح کو ہم دیکھ کیوں نہیں سکتے؟ روح کو ہم محسوس کیوں نہیں کرسکتے؟ نکلتی ہوئی روح کو ہم پکڑ کیوں نہیں سکتے؟۔۔۔۔۔۔یہ سوالات ایک الگ بحث ہے،اگر ان کے جوابات نہ بھی دئیے جائے تو اس سے روح کے وجود کی نفی نہیں ہوتی۔یا روح کی موجودگی ثابت ہونے کے بعد کوئی منکر اس قسم کے سوالات کو روح کی نفی کے دلائل سمجھنے کی خوش فہمی میں نہ رہے۔اہم یہ نہیں کہ روح کیسا ہے؟ اہم یہ ہے کہ روح موجود ہے کہ نہیں۔ جب موجود گی ثابت ہوتی ہے جو کہ مذہب کا موقف تھا،تو آگے بھی اس سلسلے میں مذہب کی ہی ماننی چاہیئے۔

جو کہ مذہب کا موقف تھا،تو آگے بھی اس سلسلے میں مذہب کی ہی ماننی چاہیئے۔
ریفرنسز درج ذیل ہیں:-


















"گناہ کرنے کی وجوہات"



"گناہ کرنے کی وجوہات"
(تحریر : ارشد خان آستک ؛ اردو شاعر و کالم نگار)
کوئی بھی بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کی درج ذیل 9 وجوہات ہی ہوسکتے ہیں ؛ پڑھئیے اور جانئیے کہ ان میں سے آپ کے گناہ کرنے کی وجہ کونسی ہے:
1) حیات بعد الموت اور وہاں سزا و جزا پر یقین نہ رکھنا
2) ان سب کا یقین ہو لیکن خدا اور اس کے عذاب سے نہ ڈرنا
3) اپنے بدن پر اتنا یقین ہونا کہ یہ بعدالموت خدا کے عذاب کو برداشت کرسکے گا۔
4) حیات بعدالموت اور وہاں کے سزا و جزا کے مقابلے میں وقتی طور پر خواہشات کے پورے ہونے اور نتیجے میں حاصل ہونے والی وقتی لذت کو ترجیح دینا
5) حیات و معاملات بعد الموت کو انتہائی دور سمجھنا اور ان کے بارے میں "ہنوز دلی دور است" والا رویہ اختیار کرنا کہ ابھی وہ سب دور ہے؛ اسی وقت پھر دیکھا جائے گا۔
6) خدا کے قہار ہونے کی صفت کو نظر انداز کر کے اسے صرف اور صرف رحیم ہی سمجھنا یا بالفاظ دیگر خدا کے رحیم ہونے کا غلط فائدہ اٹھانا۔
7) عمر کو بہت لمبی اور قابل بھروسہ سمجھنا کہ ابھی تو وقت ہے ؛ جب انتہائی بوڑھے ہوجائیں گے تو توبہ کرلیں گے۔
8) کسی انتہا درجے کی مجبوری کا ہونا۔
9) لا علمی کا ہونا۔
۔۔۔۔۔۔

Friday, July 22, 2016

مجھ پرموت کے بعد کیا بیتی؟

مجھ پرموت کے بعد کیا بیتی؟

1
ایک پر اثر کہانی

ریاض جانے کے لیےایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا۔ لیکن راستے میں رش اور چیکنگ کی وجہ سے میں ائیرپورٹ لیٹ پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی، اور دوڑتے ہوئے کاﺅنٹرپر جا پہنچا۔ کاﺅنٹر پرموجودملازم سے میں نے کہا۔ مجھے ریاض جانا ہے، اس نے کہا ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے، میں نے کہا پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دے گا۔میں نے کہا اللہ تمھارا حساب کردے۔اس نے کہا اس میں میراکیاقصور ہے؟